قارئینِ گرامی۔ ہم گزشتہ ہفتے حضرت ابو بکر ؓ کا ذکر کر تے ہو ئے ان کے قبول ِ اسلام تک پہو نچے تھے۔حضرت ابو بکر ؓ کے ایمان لا نے سے اسلام کو بڑی تقویت ملی اس لیئے کہ وہ قریش میں ایک با اثر مالدار با عزت فرد تھے۔ یہاں بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ اپنے اسلام کو خفیہ رکھیں اور ایک دور ایسا گزرا کہ جب تک عام دعوت کی اجا زت نہ ملی بہت سوں نے اسلام کو خفیہ رکھا۔ مگر یہا ں یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کے ذریعہ جو جلیل القدر
صحا بہ کرامؓ مشرف بہ اسلام ہو ئے وہ کس دور میں ہو ئے؟ آیا انہو ں نے جب کھلم کھلا تبلیغ شروع کی تب یا پہلے ہی۔ مگر ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضو ؐر کے دعویٰ نبوؐت کے ساتھ ہی وہ مسلمان ہو گئے تھے اور وہ حضرت طلحہ ؓ کی زبا نی ہے جس کو واقدی ؒ نے کئی حوالوں سے بیان کیا ہے کہ جب وہ ایک دن حضرت سوق بصری کی عبا د ت گاہ میں ٹھہرے ہو ئے تھے (جوکہ اہلِ کتاب میں سے کوئی بزرگ تھے) تو انہوں نے ان سے پو چھا کہ اے اہل ِ عرب!کیا تم میں سے کو ئی اہل ِ حرم میں سے یہا ں مو جود ہے تو میں نے کہا۔جی ہاں! میں خو د انہیں میں سے ہو ں تو انہوں نے فرما یا کہ کیا تم میں سے احمد ؐنے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔میں نے دریافت کیا کو ن احمد ؐ؟ تو انہوں نے کہا احمد ؐبن عبد اللہ بن عبد المطلب۔پھر بو لے یہ ہی وہ مہینہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بہ حیثیت نبی ؐمبعوث ہو نے والے ہیں ان کا شمار حرم والو ں میں سے ہے اور وہ خدا کے آخری نبی ؐہیں، وہی مکہ سے نخلستان کی سر سبز اور شاداب زمین کی طر ف ہجرت کر ینگے اور تم ان پر ایمان لانے والے اولین لو گوں میں سے ہو گے۔وہ فر ما تے ہیں سوق بصری کی با ت میرے دن میں اتر گئی اور جب میں مکہ پہو نچا اور لو گوں سے پو چھا تو انہوں نے حضو ؐر کے اعلان ِ نبوت کی تصدیق کی۔ پھر میں ابو بکر ؓ سے ملااور ان سے پو چھا ت کہ کیا آپ نے ان کے اعلان ِرسالت کی تا ئید اور تصدیق کی ہے جب انہوں نے اثبا ت میں جواب دیا تو میں بھی تصدیق رسالت پر ما ئل ہوکر انہیں بر حق سمجھنے لگا۔اس کے بعد میں ابو بکر ؓ کے ہمرا ہ حضو ؐر کی خد مت میں حا ضر ہو کر مسلمان ہو گیااور حضرت سوق بصری کی با تیں حضوؐر کے روبرو عرض کیں۔ جب میں اورابو بکر ؓ مسلمان ہو چکے تو ایک د ن ہم دونوں کہیں جا رہے تھے کہ شیر ِ قریش نوفل بن خویلد (جس کی کنیت ابن ِ عدویہ تھی) نے ہم کو را ستہ میں پکڑ کررسی سے باند ھ دیا اوربنو تمیم (حضرت ابو بکرؓ کے قبیلہ والے)بھی مزا حم نہیں ہو ئے، اس نے مجھے اور ابو بکر ؓ کو شیر و شکر کہا اور (ہمارے) اسلام کو دو نو ں کی ملی بھگت قرار دیا۔حضوؐر نے اللہ تعالیٰ سے دعا فر ما ئی کہ یا اللہ ابن ِ عدویہ کے شر کو اسی تک محدود رکھ اور ہمیں پنا ہ د ے ً اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دعوت کے پہلے مہینہ میں ہی ایمان لے آئے تھے۔بہر حال ان کی دعوت پر پانچ افراد اور ایمان لا ئے جو کہ سا رے کے عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ان کے اسما ئے گرامی یہ ہیں۔عثمان ؓ بن عفان، بنوامیہ میں سے۔ اور باقی حضرات بنو لو ئی میں سے، حضرت زبیر ؓبن عوام،حضرت عبد الر حمٰنؓ بن عوف اورحضرت سعد بن ابی وقاص۔ان کو اسلام قبول کرنے کے بعد وہ ساتھ لے کر حضو ؐر کی خدمت ِ اقدس میں
حا ضر ہو ئے اورانہوں نے اسلام اختیار کیا نیز حضور ؐکے پیچھے نماز پڑھی۔یہاں ایک حدیث بھی اس سلسلہ میں ہے جو کہ حضرت ابو بکرؓ کا حضوؐر پراعتماد اوران کی
معا ملہ فہمی ظا ہر کر تی ہے۔جس میں حضو ؐر نے فر ما یا (اردو ترجمہ) میں نے جس کواسلام کی دعوت دی، اس نے قبول کر نے میں کسی نہ کسی طرح کی تاخیر ضرور کی (جس کی وجہ) سوچ بچاراور پس و پیش تھا۔بجز ابو بکر ؓ بن قحافہ کی کیفیت کہ جب میں نے ان ؓ سے ذکر کیا تو نہ انہوں ؓنے اس میں نہ تا خیر کی اور نہ پس و پیش کیا ً۔ ان کا یہ ہی جو ہر بعد تاریخ میں بہت سے مو قعوں پر نظر آتا ہے۔ اس کے اظہار کا دوسرا مر حلہ وہ تھا۔ جب حضوؐر کو معراج نصیب ہو ئی اورلوگ کعبہ میں بیٹھے ہو ئے اس کا مضحکہ اڑا رہے تھے کہ ابو ؓ بکر آتے ہو ئے نظر آئے۔ان سے کہا کہ اب بھی تم ؓ انہیں اپنا رہبر مانتے ہوجب کہ وہؐ ایسی بے سروپا با تیں کر رہے ہیں؟پھر ان کے پو را واقعہ معراج گو ش گزار کیا۔توانہوں ؓ نے ان سے پلٹ کر صرف اتنا پو چھا کیا واقعی وہ ؐ ایسا فر ما رہے ہیں؟اور جب سب نے جواب اثبا ت میں دیا تو فر مایا کہ اگر وہ ایسا فر ما رہے ہیں تومیں اس کی تصدیق کر تا ہوں،اور وہ مایو س ہو گئے جبکہ اس سے پہلے یہ واقعہ سنا کے وہ کئی لو گوں کو بد عقیدہ بنا چکے تھے۔ جب یہ خبر ؐ حضو ر تک پہو نچی تو انہوں ؐ نے حضرت ابو بکر ؓ کو صدیق کے خطاب سے نوازا۔دوسرا مر حلہ جب آیا جب حضو ؐ ر کے وصال کے بعد اچھے اچھے صحابہ ؓ کرام اوسان کھو بیٹھے۔اس وقت انہوں ؓنے ان کی کا میاب رہنما ئی فر ما ئی۔پھر اس کے بعد انہوں ؓ نے دین کو سختی سے حضو ؐر کے را ستہ پر گا مزن رکھا۔ورنہ اسلام کا شیرازہ منشر ہو جا تا۔ جس میں ان کا اسامہ ؓ بن زید کے لشکر کی روانگی۔ منکر ان زکات قبائل کا مسئلہ اور جھوٹے مد عیا ن ِ نبوت وغیرہ شامل ہیں۔جوآپ آگے چل کر پڑھیں گے۔ اگر وہ اس وقت ذرا سے تذبذب سے کام لیتے اور ان جلیل القدر صحا بہ ؓ کا مشورہ قبول کر لیتے کہ اس وقت مصلحت سے کا م لیا جا ئے اور تمام معا ملا ت التو ا میں ڈالدیئے جا ئیں تو دین اسلام،دین ِ مصلحت بن جاتا اور اسلام کی تا ریخ کچھ اور ہو تی۔ ان ہی کے اُن اقدامات کو مثا ل بنا کر اسلام کے فرا ئض سے روگردانی کا قیا مت کے لیئے ایک جواز بنا لیاجاتا اور لوگ اتبا ع رسول ؐ کو غیر ضروری قرار د یدیتے اور دین مو قع پر ستوں کی آما جگا ہ بن جا تا۔
حضرت ابو بکر ؓ کی جانثاری۔ایک دن جبکہ حضور ؐ کعبہ میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ کہ ابو جہل نے انؐ کے گلے میں چادر ڈال کر اور اس کو بل دینا شروع کردیئے۔حتیٰ کہ حضو ر ؐ کی چشم ہا ئے مبا رک تکلیف کی شدت کے باعث باہر ابل آئیں۔حضرت ابو بکر ؓ آگے بڑھے اور اس سے دست بہ گریبان ہو گئے۔یہ واقعہ ام المو نین حضرت عا ئشہ سے روایت ہے وہ فرما تی ہیں۔کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی ان پر پل پڑے اور ان کو بری طر ح زد وکوب کیا۔ اور ریش
مبا رک اور سر کے بال بری طرح کھینچے۔اتنے میں بنو تمیم کے لو گ آگئے اور وہ ان کو بچا کر لے گئے۔ لیکن کئی دن وہ ان چو ٹوں کی وجہ سے دردِ سر میں مبتلا رہے۔اور دوسرا اور سب سے اہم واقعہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کی تعداد اڑتیس ہو گئی۔ تو انہوں ؓ نے حرم شریف میں جاکر کھلی تبلیغ کی اجازت چاہی لیکن حضورؐ منع فر ماتے رہے۔ جب انہوں ؓنے بہت اصرار کیا تو حضوؐ ر نے اجازت دیدی۔وہ ؓ دس دس کی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر کعبہ پہو نچے۔ اور حضرت ابو بکرؓ نے تقریر شروع فرمائی جس میں اسلام کی حقانیت بیان فر ما ئی۔ اس طرح وہ پہلے شخص اہل ِ ایمان میں سے تھے جنہوں ؐ نے حضو ؐر کے روبرو تقریر کی۔ بس پھر کیا تھا کہ
سا رے قریش ان پر ٹو ٹ پڑے اور زدو کو ب کر نا شروع کر دیا۔یہ دیکھ بنو تمیم کے لو گ ان کو بچا نے کے لیئے پہو نچے۔لیکن انہوں نے ان سے بھی لڑنا شروع کردیا اور ظاہر ہے کہ بنو تمیم کا چھوٹا سا قبیلہ پو رے قریش کے مقا بلہ میں کیاکر سکتے تھا واضح رہے کہ یہ وہ اس کعبہ میں کر رہے تھے جہا ں خو ن بہا نا منع ہے۔ وہ حضرت ابو بکر ؓ کوما رتے رہے اور اتنا زد کوب کیا کہ اپنے نزدیک وہ سمجھے کہ انہو ں نے حضرت ابو بکر ؓ کو شہید کر دیا۔ آخر ان کو بنو تمیم ایک (چادر کا اسٹریچر بناکر) چا در میں ڈال کر لے گئے اور ان کو ان کے گھر پہو نچا دیا۔ پھر واپس آکر اعلان کر دیا کہ وہ ؓشہید ہو گئے۔ اس کے بعد وہ واپس گئے (شاید تہجیز اور تکفین کے انتظا مات کے لیئے) مگر دیکھا کہ ابھی انؓ میں کچھ زندگی کی رمق با قی ہے لہذا انہوں نے ان کے جسم کو اپنی زبانوں سے چا ٹ کر صاف کیا اور ان کے گھر والوں کو ہدایت کر کے چلے گئے کہ جب یہ ؓہو ش میں آجائیں تو ان ؓ کو صرف رقیق غذا دی جا ئے لیکن وہ ؓجب ہو ش میں آئے تو انہو ں ؓ نے پہلا سوال یہ پو چھا کہ حضو ؐر کیسے ہیں؟اور جب اہل ِ خانہ نے اس سے لا علمی کا ظاہر کی تو انہوں ؓ نے فر ما یا کہ میں جب تک کچھ نہیں کھا ؤں پیونگا، جب تک میں حضور ؓ کو نہ دیکھ لوں۔ (باقی اگلے بدھ کو پاکیزہ میں پڑھئے)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
زمرے
حالیہ تبصرے