بتاؤ ں تم کو کیا اے لوگوں میرے سرکارﷺ کیسے تھے
لکھا لا ئے رب سے تھے سرداری سردارﷺایسے تھے
یہ تھااجداد کا شیوہ کہ وہ گزرتے خوشبو پھیلاتے
تھے چمکتے مثل ِسورج وہ صاحب ِکردار ایسے تھے
میں نے اپنے اس قطعہ کو دو حصو ں میں تقسیم کیا ہوا ہے پہلے دو اشعار میں حضور(ص) کا ذکر ہے اور دوسرے ۤآخری دو اشعار میں ان (ص) کے اجداد کا ذکر ہے۔ ابتدا یہاں سے ہو تی ہے کہ حضرت حاجرہ سلام اللہ علیہا حاملہ ہو جاتی ہیں تو یہ بات حضرت سارہ کو بہت ہی گراں گزرتی ہے کیونکہ وہ پہلی بیوی تھیں اور اولاد سے محروم تھیں لہذا اس گھرانے کو چپقلش نے آگھیرا کیونکہ وہ پہلی بیوی تھیں۔ جبکہ حضرت حاجرہ (س) کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تحفہ میں اسرائیلیات کے مطابق دوران ہجرت کسی بادشاہ نے دیا تھا۔ جب وہ تنگ ہوگئے تو انہیں لیکر وہ مکہ تشریف لا ئے جہاں کوئی آبادی نہیں تھی کیونکہ پانی ہی نہیں تھا جبکہ علاقہ پہاڑی اور ریگستانی تھا۔ وہ (ع) جب انہیں چھوڑ کرواپس جانے لگے تو انہوں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام سے تین مرتبہ پوچھا کہ آپ مجھے یہاں بے آب اورگیاہ میدان میں کس وجہ سے چھوڑے جا رہے ہیں تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیاپھر انہوں نے کہا کہ آپ اپنی مرضی سے یا اللہ کے حکم سے یہ کام کررہےتب انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کا حکم ہے۔ پھر وہ مطمعن ہو گئیں اور انہوں نے فرما یا کہ اگر اللہ کا حکم ہےتو سر آنکھوں پر آپ تشریف لے جا ئیں اللہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ حضرت اسمعیل علیہ اسلام گود میں تھے انہیں انہوں نے زمین پر لٹا دیا اور خود پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے لگیں اس طرح سات چکر لگا ئے اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کواتنے پسند آئے کہ قیامت تک لئے اراکان حج میں شامل فرما دیئے ۔ادھر جب حضرت اسمعٰیل علیہ السلام نے زمین پر مسلسل پاؤں مارے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حکم سے پانی نکل آیاجس کو حضرت حاجرہ (س) نے مٹی اور پتھروں کاحوض بنا کر اس میں جمع کر لیا۔ اُدھر دوسری طرف بنو جرہم کا قبیلہ وہاںسے گزر رہا تھا اس نے جب پرندے فضا میں اڑتے دیکھے تو وہ اس طرف چلا آیا اس نے وہاں آباد ہونے کی درخواست کی تو انہوں نے اس شرط پر اجازت دیدی کہ حوض میری ملکیت میری رہے گا۔ اس طرح اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی اس متوکل بندی کو چاہ زمزم کامالک بنا دیا۔ کیونکہ اللہ نے قرآن میں فرما یا ہے کہ “ اللہ متوکلین کے ساتھ۔ ہے“ اس واقعہ میں کئی سبق ہیں مومنین کے لئے۔ اس وقت تک بلکہ اس کے بعد تک کسی کوپتہ نہیں تھاکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا آئندہ کے لئے منصوبہ کیاہے۔ جبکہ ایک حدیث کے مطابق جو طبری میں بیان ہو ئی اس سے پہلے کعبہ یہاں فرشتوں نے بنا یا تھا اور وہ ٹینٹ کی شکل میں تھا۔ اس کے بعدخود آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا لیکن مورخین کا خیال ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا طوفان اسے بہا لے گیا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اسے دنیا بھر کا قبلہ بنا ناتھا اور اس کا منصوبہ کام کررہا تھا حضور (ص) کے جد امجد حضرت اسمعیل علیہ السلام کو اس کا امام بننا تھا قدرت نے ان کو یہاں تک پہنچا دیا۔ کیونکہ ۤآگے چل کر ان ہی کی اولاد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا ہونا تھا اور تکملہ ِ انسانیت جس کی ابتدا آدم علیہ السلام ہوئی وہ نبی آخر الزمان پر ختم ہونا تھی۔ جبکہ دوسری طرف یعقوب علیہ السلام حضرت سارہ کے بطن سے بعد میں پیدا ہوئے۔ جنکو یہودی حضرت اسرائیل کہتے ہیں۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام امام الا انبیا بنے اور انہوں نےاللہ کے حکم سے کعبے کی بنیا د رکھی اور دونوں باپ بیٹوں نے ملکر اللہ کا گھر بنایا جبکہ پہلے اسکا نام بیت العتیق تھا اور اس طرح حضور (ص) کو اپنے دادا کی دعا ہونے کا شرف حاصل ہوا۔(بقیہ اگلی قسط میں کل پڑھیئے)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
زمرے
حالیہ تبصرے