پرسوں وہ دن طلوع ہو نے والا ہے جس میں کہ سر کا ر ِ دو عا لم محمد مصطفٰی ﷺکی ولادت با سعا دت ہو ئی۔ان کے با رے میں اتنا کچھ لکھا گیا کہ شا ید ہی کسی کے با رے میں لکھا گیا ہو۔ جو آپ ہر سا ل رو ایتی مضا مین میں پڑھتے ہیں لیکن جب کو ئی شخصیت ہمہ صفت ہوتو اس کا کو ئی نہ کو ئی پہلو وہ اہمیت نہیں حاصل کر پا تا اور نگا ہو ں سے اوجھل رہ جا تا ہے۔ جوبعض اوقات اس کی سب سے اہم خصو صیت ہو تی ہے اور دب جا تی ہے۔یہ ہی معا ملہ آقا ئے نا مدارﷺ کے با رے میں ہے کہ وہ ایک
کا مل شخصیت تھے۔ لہذا لو گو ں نے انہیں بطو ر نبیﷺ پیش کیا، بطو ر بہترین سپہ سالار ﷺپیش کیا، بہترین منتظم ﷺپیش کیا، بہترین منصفﷺ پیش کیا مگر کسی بھی اسکا لر نے انﷺ کے اس وصف پر زیا دہ روشنی ڈا لنے کی کوشش نہیں کی جو اس دور میں اور ان ﷺکی شخصیت میں نا در الو جو د تھا۔ مگران ﷺکے خا لق کی نگا ہ میں سب سے زیا دہ اہم تھا۔ وہ تھیں دو صفا ت جو قدرتی طو ر پر ہمیشہ ایک دو سری سے جڑی ہوئی ہو تی ہیں اور وہ ہیں خلق ِ عظیم اور رحمت یعنی با الفا ط ِ دیگر ایک انتہا ئی اچھا اخلا ق اور رحیما نہ طبیعت جو خالق کی نگا ہ میں سب سے ا ہم تھیں۔جس نے بے حسا ب مخلو ق تخلیق کی اور ان سب میں سے ایک کا مل انسا ن پیدا کیا جس پر تما م اکملیت ختم کر دی اور اس میں سے اس کے نز دیک سب سے زیا دہ جو چیز اہم تھی وہ اس نے چن لی جو کہ رحمت تھی اور حضو رﷺ کی اکملیت کے حسا ب سے وہ بھی بہ د رجہ اتم عطا فر ما ئی۔لیکن حضورﷺ کا دور وہ دو ر تھا جس میں حکمرانو ں کی عظمت دو سری چیزو ں کی بنا پر ما نی جا تی تھی۔ وہ تا ریخ دانوں نے
حضو رﷺ میں پا ئیں اورچن لیں لہذا جو جمع کنند گان کے خیال میں ا ہم تھیں اور لو گو ں کے سینو ں میں محفو ظ رہ گئیں تھیں ان کو محفو ظ کرلیا گیا۔کیو نکہ ان کو یہ علم نہیں تھا کہ ایک دو ر ایسا آئے گا۔ جس میں سیرتﷺ کے اِس حصہ کا کھو ج لگا نا ہو گا جس کو خدمت ِ خلق، ایثار اور قربا نی کہتے ہیں اور اس کو ایک وقت میں وقت کے لحا ظ سے سب سے زیا دہ اہم ہونا تھا اور اسےسب سےزیادہ اہمیت دی جا ئے گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حضو ر ﷺکے چا لیس سا لہ کا رنا مے جو کہ لا کھو ں کی تعداد میں ہو نا چا ہیئے تھے کیو نکہ وہ پہلے چا لیس سال خدمت ِ خلق پر محیط تھے۔ ان میں سے چند کے سوا کچھ کہیں درج نہیں کیو نکہ اس دور میں نہ کا غذ تھا نہ قلم اور نہ خوا ندہ لو گ۔ وہ یا دا شتیں بھی اسی طرح سینو ں میں تھیں جس طر ح دوسرے کا ر نامے مگر جمع نہ کر نے کے با عث جا نے والوں کے سا تھ وہ بھی چلی گئیں ۔ اور ان کا اب چو دہ سو سا ل کے بعد سرا غ لگا نا نا ممکن ہے۔ جیسی جیسی ضرورت ہو تی گئی اس پر لو گ حضورﷺ کے وصال کے بعد متو جہ ہو تے گئے۔ مثلا ً ارکا ن اسلام اور روزمرہ کا کا رو با ر چلا نے کے لیئے احا دیث اورسنت کی ضرورت پڑی اور لو گو ں نے محسو س کیاکہ صحابہؓ کرام انتقال فرماتے جا رہے ہیں اور وہ بھی سا تھ میں کم ہو رہی ہیں۔تو ان کو اکھٹا کر نا شروع کیا اور ایک ایک حد یث کے لیئے میلو ں کاسفر کیا مگر سیرت کے اس حصہ کی اس وقت کو ئی خا ص ضرورت محسو س نہیں کی گئی۔ لہذا کسی نے ان کو مر تب بھی نہیں کیا اور اب جبکہ دنیاہر چیز کاثبو ت ما نگتی ہے۔ جو انٹر نیٹ کے ذریعہ ایک منٹ سے کم عرصہ میں دنیا کے اس کو نے سے اس کو نے تک پہو نچ جا تا ہے۔ اگر سیرت کے کسی طا لب علم سے یہ سوا ل پو چھا لیاجا ئے کہ ً حضور ﷺ کو ًرحمت اللعالمین ً کیو ں کہا گیا؟ تو وہ بغلیں جھا نکتا نظر آئے گا۔ اللہ تعا لیٰ مو لا نا حا لی ؒ کی قبر کو منو ر فر ما ئے کہ انہو ں نے سب سے پہلے مسدس ؔحا لی میں یہ اشعارکہہ کر حضورﷺکا بڑا خو بصو ر ت تعا رف پیش کیا ہے ؎وہ نبیوؑ ں میں رحمت ﷺلقب پا نے وا لا وہ اپنے پرا یوں کے کا م آنیوالا۔ حرا سے اتر کر سو ئے قوم آیا اوراک نسخہ کیمیا سا تھ لا یا “ ان اشعار میں جو واقعا ت جس طر ح رو نما ہو ئے اسی تر تیب سے مو لا نا نے پیش کیئے ہیں۔ یعنی سب سے پہلے خدمت ِ خلق رحمت،شفقت اور مروت دیا نت وغیرہ جو چا لیس سا ل تک حضورﷺ کا طر ہ امتیا ز تھی۔ یعنی غلا مو ں کے
حما یتی بو ڑھو ں کے مدد گا ر اور مظلو مو ں کی داد رسی انﷺ کا شیوہ تھا۔ جس کے لیئے قر آن نے کہا کہ اس کا عا مل کبھی فنا نہیں ہو گا۔ حضو رﷺنے تلقین فر ما ئی کہ خد مت کرو ،خدمت کرو، خدمت کرو۔ اور ایک حدیث میں فر ما دیا “کہ وہ انسا ن ہی نہیں جو انسا نو ں کے کام نہ آئے“ چو نکہ ابتدائی دور میں حضورﷺ کے پا س سوا ئے خد مت خلق کے کو ئی اور ذمہ دا ری نہیں تھی لہذا یا تو وہ لو گو ں کی خد مت میں وقت گزا رتے تھے یا پھر عبا دت میں۔ ان میں سے تھو ڑی سی مثا لیں اگر کسی کا
مطا لعہ وسیع ہے تو کہیں کہیں سیرت کی کتا بو ں میں بکھری ہو ئی ملیں گی لیکن افرا ط سے اس لیئے نہیں ہیں کہ جیسا ہم نے پہلے عرض کیا کہ اس پر تو جہ نہیں دی گئی۔ سیرت نگا روں کے نز دیک وہ حصہ زیا دہ اہم تھا جو نبوتﷺ پر مبعو ث ہو نے کے بعد کے دو ر پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے کے واقعا ت اگر کہیں نظر بھی آئیں۔ تو عا م قا ری یو نہیں پڑھ کر گزر جاتا ہے۔کیو نکہ اس کے لیئے کو ئی علیٰحدہ با ب مو جو د نہیں۔ مگر آج کے دو ر میں ان ہی کی سب سے زیا دہ ضرو رت ہے کیو نکہ یہ دو ر خدمت ِ خلق کا دور ہے جس کی ابتدا حضورﷺسے ہو ئی تھی جو کہ ان کا طرح امتیاز تھا۔ اورصفا ت کی طر ح اکملیت کے در جہ پر پہو نچی ہو ئی تھی۔ ہما ری صو رت حا ل یہ ہے کہ یہ کسی بھی مسلما ن سے پو چھیں کہ وہ کیا تھے تو فخر سے کہے گا کہ وہ“ رحمت اللعا لمین تھے“مگر وہ خصو صیا ت کیا تھیں جن کی بنا پر وہ رحمت اللعا لمین کہلا ئے اور خو د انﷺکے خا لق نے ان کو رحمت اللعا لمین فر ما یا۔اس پر بڑا سے بڑا عا لم چند مثا لو ں کے بعد خا مو ش ہو جا ئے گا۔ جبکہ غیر مسلم حضورﷺ کے زما نے سے لے کر آج تک وہ تمام چیزیں جمع کر تے آئے ہیں۔ جو گمرا ہ کن اور جھو ٹ کا پلندہ تھیں۔ تاکہ حضو رﷺ کے اوصاف حمیدہ کے خلا ف کسی طر ح کچھ بھی ثا بت کیا جا سکے اور ہم اس کے جو اب کے لیئے آج دلا ئل سے مسلح نہیں ہیں لہذا بعض اوقا ت ہم جھنجھلا ہٹ کا مظا ہرہ کرتے ہیں اور ڈنڈے سے کام لیتے ہیں۔جو کہ قطئی غلط رویہ ہے اس لیئے کہ دلا ئل کا جو اب دلا ئل سے آج کی دنیا میں پسند کیا جا تا ہے۔(بقیہ کل پڑھئے)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
زمرے
حالیہ تبصرے