اب ضرورت اس بات کی ہےکہ جو بھی بچا ہواسر ما یہ مو جو د ہے اس کو یک جا کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر مزید تحقیق کی بھی۔تو جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں حضو رﷺ نے چا لیس سا ل تک صرف اور صرف خد مت ِ خلق کی یہ ہی وجہ تھی کہ تما م پسما ند ہ لو گ ان کے ہمنوا بن گئے۔وہ غلا مو ں کی حما یت کر تے بو ڑھو ں کا بو جھ ڈھو تے لو گو ں کے ما ل کی حفا ظت کر تے لہذا لو گ ان کی دیا نت کی وجہ سے اما نتیں ان کے پا س رکھتے۔اور اس کے لیئے جس چیز کی ضرو ر ت ہو تی ہے وہ بھی پر ور دگا ر نے ان کو بد رجہ اکملیت عطا کی تھی وہ تھا جذ بہ ایثا ر۔اس کا پہلا مظا ہر ہ جو ہمیں پیدا ئش کے فو را ً بعد نظر آتا ہے وہ یہ تھا کہ اپنے دو دھ شر یک بھا ئی کو اپنے اوپر تر جیح،ما ئی حلیمہؓ فر ما تی ہیں کہ میں اگر انہیں دو دھ پلا نا بھی چا ہتی وہ اس وقت تک نہ پیتے جب تک میرا بیٹا نہ پی لیتا اور یہ اس اکملیت کا پہلا ثبوت تھا۔جو نظر آتا ہے۔اس کے بعد بڑے ہو ئے تو ما ئی حلیمہؓ کو کبھی انہو ں نے تنگ نہیں کیا نہ ضد نہ شرا رتیں بلکہ کو شش کر تے کہ ان کا ہا تھ بٹا د یں۔ اس کے بعد وہ دو ر آیا کہ وہ گھر سے با ہر تشر یف لے جا نے لگے، گو کہ یہ ان کی ڈیو ٹی نہ تھی کہ وہ کا م کر یں مگر وہ اپنے دو دھ شر یک بھا ئی بہنو ں کا ریو ڑ چرا نے میں ہا تھ بٹا تے۔اس کے بعد وہ مکہ آگئے۔ اور یہا ں غلا مو ں کے سا تھ ظلم دیکھا،ان کی وہ جو بھی مدد کر سکتے تھے کر نے لگے۔بو ڑھوں کا کا م کرتے ان کا بو جھ اٹھا لیتے۔جب جو انی کو پہو نچے تو انہو ں نے پو رے معا شرے کو بر ائی میں
ملو ث پا یا۔لہذا انہو ں نے ایک کمیٹی بنا نے پر سردا روں کو را ضی کر لیا اور وہ پسا ند ہ اور مظلو مو ں کو امدا د فرا ہم کر نے لگے۔اور اس میں وہ ﷺسب سے زیادہ فعال تھے۔اور یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہا حا لانکہ نبو تﷺ کا دعوہ کر نے کی وجہ سے سب ان کے دشمن ہو چکے تھے۔اس دو ر میں بھی ایک واقعہ ایسا ملتا ہے جس کو لو گو ں نے اور طر ح سے پیش کیا ہے وہ یہ تھا کہ ابو جہل نے ایک بدو سے اونٹ خریدا اور پھر نا دہند ہو گیا کسی نے حضو رﷺ کی طر ف اشا رہ کر کے کہا ان ﷺ کے پا س چلا جا وہ دلوا دیں گے۔ وہ حضورﷺ کے پا س آیا آپﷺ فورا ً اس کے سا تھ چلد دیئے اور جیسے ہی اس نے حضورﷺ کے ہمرا ہ اسے آتادیکھا ابو جہل نے فو را ً اس کو رقم لا کر دیدی۔اس آدمی کا کہنا اور حضو ر (ص) کا جا نا اسی معا ہدہ کے تحت تھا۔لیکن جن کو اس معا ہدہ کا علم ہی نہیں ہے وہ دوسری تو ضیحات پیش کرتے ہیں۔اب آگے دیکھتے ہیں کہ ایک ضعیفہ مکہ چھو ڑ کر جا رہی تھی حضورﷺ اس کا سا مان اٹھا لیتے ہیں۔ اور اس کو کارواں تک پہو نچا دیتے ہیں۔حضور ﷺاس سے پو چھتے ہیں کہ اس ضعیفی میں وجہ سفر؟ تو کہتی بیٹا میں اپنا ایما ن بچا کر لے جا رہی ہو ں۔یہا ں ایک شخص ہے محمدﷺ وہ بڑا جا دو گر ہے اور ایسا الفا ظ کا جا دو چلا تا ہے کہ لو گ اس کے مطیع ہو جا تے ہیں تم بہت اچھے آدمی ہو اس سے بچ کر رہنا اور ہا ں بیٹا! تمہا را نا م کیا ہے؟ حضو ر فر ما تے ہیں محمدﷺ اور وہ ایما ن لے آتی ہے۔ دوسرا واقعہ سنئے کہ ایک بو ڑھی جب حضو رﷺ وہاں سے گز ر تے تو انتظا ر میں رہتی ہے اور ان کے اوپر روزانہ کو ڑا پھینکتی، ایک دن وہ نظر نہیں آئی ہے تو حضورﷺ اس کے دروازے پردستک فر ما تے ہیں۔ وہ پو چھتی ہے کو ن ہو کیسے آئے ہو تو حضو ر فر ما تے ہیں میں محمد ﷺ ہوں آج تم نظر نہیں آئیں تو خیریت پو چھنے آگیا۔ اس نے بتا یا کہ میں بیما ر ہوں۔ اس وجہ سے نہ آسکی اور وہ شرمندہ ہوکرایما ن لے آتی ہے۔ حضورﷺ کے قتل کے منصو بے بن رہے ہیں مگر لو گ اپنی اما نتیں اب بھی ان (ص) ہی کے پا س رکھتے ہیں۔حضورﷺانتقام میں انہیں غصب نہیں فر ما تے ہیں۔ حتیٰ کہ جس را ت ہجرت فر ما تے ہیں ان اما نتو ں کو سپرد کر نے کے لیئے اپنے سب سے زیا دہ چہیتے چچا زاد حضرت علی ؓ کو خطر ہ میں
ڈا لد یتے ہیں۔جب کہ اِس کی تا ریخ میں ایک اور مثا ل بھی مو جو د تھی کہ بنی اسرا ئیل قبطیو ں کی اما نتیں سا تھ لے آئے تھے۔اس کے بعد جب ایک عرصہ کی جلا وطنی کے بعد بطو ر فا تح مکہ میں دا خل ہو تے ہیں۔دس ہزا ر جا نثا ر فو ج ہم رکا ب ہے۔ اب وہ لو گ لر ز رہے ہیں جنہو ں نے حضو رﷺ اور مسلما نو ں ؓ کی زند گی اجیرن کیئے رکھی حج اور عمرہ جس سے کسی کو بھی رو کنے کا رواج نہ تھا نہیں کر نے دیا۔ حضرت بلا ل ؓ کو ریت پر تپا نے وا لے غلا مو ں کو اس خطا پر مار نے وا لے کہ انہو ں نے اسلام کیو ں قبو ل کیا۔ حضورﷺ پر سا ت سا ل تک دا نہ پا نی بند کر نے وا لے سب خا ئف تھے اور پر یشا ن تھے کہ دیکھیں اب کیا ہو تا ہے کہ ایک منا دی کرنے والا اعلان کر تا ہے کہ جو حرم میں ہو وہ محفو ظ ہے، اپنے گھر میں بیٹھا رہے وہ محفو ظ ہے۔ جو حضورﷺ پر اور حضرت بلا ل ؓ پر ظلم ڈھا نے والےابو سفیا ؓن کے گھر میں پنا ہ لے وہ بھی محفو ظ ہے۔ حضو رﷺ حرم میں دا خل ہو کر فر ما تے ہیں کہ آج کے رو ز کو ئی انتقام نہیں میں سب کو معا ف کر تا ہو ں۔لو گ جو ق در جو ق بیعت کے لیئے حا ضر ہو رہے ہیں ان میں ابو سفیا ن کی بیو ی ہندہ بھی ہے۔ جس نے حضورﷺ کے چچا کا کلیجہ نکا ل کر چبا یا تھا۔ وہ جا تے ہو ئے ڈرتی ہے منہ چھپا تی ہے مگر معا فی لے کر نکلتی ہے۔ عکرمہ بن ابو جہل کی بیو ؓ ی آکر کہتی ہیں جو مسلمان ہیں اور مدینہ ہجرت کر چکی ہیں۔ کہ عکر مہ اور صفوان بن امیہ بھا گ گئے ہیں اگر آپ انہیں معا ف کر دیں۔ تو میں انہیں لے ‘
آؤ ں حضورﷺ فر ما تے ہیں لے آؤ معا فی ہے۔ یہ دو نو ں وہ تھے جو کہ اس دن بھی جنگ سے بعض نہ آئے اور خا لدؓ بن ولید سے بھڑ گئے اور جب شکست کھا ئی تو فرار ہو گئے۔ عکر مہ بھا گ جا تا ہے مگر صفوان کو جہا ز نہیں ملتا ہے لہذا وہ انؓ کو مل جا تا ہے اس کو معا فی کا یقین نہیں آتا مگر ان کے یقین دلا نے پر چلد یتا ہے جب در با ر ِ رسا لت میں پہو نچتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ایما ن دو ما ہ بعد لا ؤنگا اگر میرا دل چا ہا تو حضو رﷺ فر ما تے ہیں تمہیں دو ما ہ نہیں چا ر ما ہ کی مہلت ہے۔وہ ایک ما ہ کے بعد ہی غزوہ حنین میں مدد کر تا ہے اورایما ن لے آتا ہے۔ عکر مہ مدینہ میں آکر مشرف بہ اسلام ہو تا ہے۔ حبشی جس نے حضر ت حمزہ ؓ کودھو کے سے اپنے حر بہ سے شہید کیا تھا چھپتا پھر رہا ہے کیو نکہ اب پو را عرب اسلام میں دا خل ہو چکا ہے اس وقت کو ئی اسے مشو رہ دیتا ہے کہ کمبخت رحمت سے نا امید کیو ں ہے؟ وہ تو رحمت ِ عا لمﷺ ہیں۔جا اور جا کر انکے ﷺسا منے کلمہ پڑھے لے وہ جا تا ہے اس حا لت میں کہ کلمہ اس کی زبا ن پر ہے حضو رﷺ اس کو بھی معا ف کر دیتے ہیں۔اس ہدا یت کےساتھ کہ آئندہ میرے سا منے نہیں آ نا کہ میں بھی انسا ن ہو ں اور میرے منہ سے مبا دا کو ئی غلط با ت نکل جا ئے۔ کیا ایسا انسان دنیا نے کو ئی اوردیکھا؟ اسی لیئے حق تعا لیٰ نے فر ما یا۔ وما ارسلٰنک الارحمت اللعا لمین (اے محمد ﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہا نو ں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
زمرے
حالیہ تبصرے