الحمد اللہ ہماری سیرت پر گیارہ کتا بیں بشمول حقوق العباد اور اسلام ً ، سیرت ِ مبارکہ حضور ﷺ (روشنی حرا سے) کتابی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں پہونچ گئیں۔ قصے مخلصین کے ً کا پہلا حصہ اخباری قسطوں میں پیش کرکے ختم کر لیا جو انبیا کرام ؑ کی حیات مبارکہ کے بارے میں تھا اور آپ لو گو ں نے جس دلچسپی سے ان سب کو پڑھا اور سرا ہا اس کے لیئے میں شکر گزار ہو ں۔ اب ہم جس دور میں دا خل ہو رہے ہیں وہ ہے صحابہ کرام ؓکی سوا نح حیات۔
یہ ا س سے بھی مشکل کام ہے کیو نکہ اس پر سب سے کم تو جہ دی گئی جو بہت ہی اہم تھیں امت کے لیئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی وجہ سے فر قہ بندی نے جنم لیااور با تیں کچھ کی کچھ ہو گئیں اور حامیوں اور مخالفین کے ایسے گروہ بن گئے کہ حق کو نا حق، اور نا حق کو حق کہنے لگے۔اب اس پر لکھنا مجھ جیسے۔اتحاد بین المسلمین کے حامی کے لیئے بڑا مشکل کام ہی نہیں بلکہ کا نٹوں کی سیج ہے اس لئے اس کا حصہہ دوئم توقسطوار اخباروں میں شائع ہوچکا مگر پہلا حصہ جو میں اب پہلے پیش کرنے جا رہاہوں وہ التوا میں رہا اس لیئے کہ میں ان چاروں حضرات کی سیرت لکھ چکا تھا میں نے سوچا کہ میں بعد میں پہلا حصہ تحریر کرکے مکمل کردونگا۔ اس لئے یہ معاملہ التوا میں پڑا رہا اور کتاب نا ممکل رہی۔ اب اللہ سبحانہ تعالیٰ کی نصرت اور آپ لو گو ں کی ہمت افزا ئی کی بنا پر میں اس کو مکمل کرنے کی شش کرر ہا ہو ں اور انشا اللہ ہمیشہ کی طر ح اپنی غیر جا نبداری بر قرار رکھو ں گا۔
اگر آپ کو کو ئی خامی نظر آئے تو مجھ سے پو چھ ضرور لیجئے گا، اپنے ذہن میں بد گما نی پیدا کر نے سے پہلے۔کیونکہ اللہ سبحانہ تعا لیٰ فر ما تے ہیں کہ بعض گمان کفر تک لے جا تے ہیں۔اب یہاں پھر سب سے پہلا مسئلہ یہ تھا کہ شروع کس سے کیا جا ئے جو کہ مجھے پہلے در پیش تھا میں نے سو چا کے پہلے حروف تہجی کے اعتبار سے شروع کر یں۔ لیکن یہ عجیب اتفا ق ہے کہ اس وقت جس زاویہ سے بھی میں دیکھا حضرت ابو بکرؓکا نام ہی پہلے آتا ہے۔ اگر ہم ان کے اصل نام کو لیں تو بھی وہ پہلے ہی آتا جو کہ با اختلاف مورخین عتیقؓ یاعبد اللہؓ ہے۔جبکہ با قی تین جلیل القدر صحابہؓ بھی ًع ً سے ہی شرع ہو تے ہیں یعنی عمر ؓ، عثمان اور علی ؓ اور کنیت اور مشہور نام سے لیں، تو معاملہ با لکل صاف ہو جاتا ہے کہ ابو بکرؓ الف سے شروع ہو تا ہے۔اب رہی مراتب کی بات تو بھی چا روں کے حق میں احادیث مو جو د ہیں اور ہم اس بنا پر کسی کو تر جیح دینے والے کون؟ انتہا ئی معمولی امتی جس طر ح سد رۃ المنتہیٰ سے آگے حضرت جبر ئیل ؑکو پر جلنے کا خدشہ تھا اسی طر ح اس بارے میں سو چنا بھی ہما رے لیئے اپنی عاقبت خراب کر نا ہے۔
اگر قربت کی بنا پر لیں تو ایک یا ر غار بچپن کے دوست اور سسر ہیں اور حضرت عمر ؓ سے بھی یہ ہی رشتہ ہے کہ اگر حضرت ابوبکر ؓ ام المو منین عا ئشہ ؓکے والِد محترم ہیں تو وہ ام المو نیں حضرت حفصہ کے والد ِ محترم ہیں۔ اس کے بعد حضرت ؑ عثمان ؓ ہیں جو ذوالنو رین ہیں کہ ان کے ساتھ حضورﷺ کی دو صا حبزادیوں کی شادی ہو ئی تھی۔ پھر حضرت علیؓ ہیں کہ جو داماد بھی چچا زاد بھی ہیں۔لہذا ہمیں یہ نام جس طر ح تا ریخ میں لکھے ہو ئے ملے اسی طر ح پیش کر دیئے تھے۔ لیکن ہمیں یہاں ایک آسانی یہ بھی حاصل ہے کہ عشرہ مبشرہ کی فہرست میں حضور علیہ السلام نے ان کا نام سر ِفہرست رکھا ہے اسی لیئے ہم پھر حضرت ابو بکر (رض) سے ہی شروع کر رہے ہیں۔
حضرت ابو بکر ؓ کا ایمان لانا۔حضرت ابو بکر ؓ شروع ہی سے ہی انتہا ئی پا کبا ز تھے انہوں نے کبھی شراب کو منہ تک نہیں لگا یا اور نہ بتوں کو کبھی پو جا اور اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ کند ہم جنس با ہم جنس پر واز کبو تر با کبو تر با ز بہ بازکے مصداق انہوں نے دو ست بھی اپنے جیسو ں کو ہی نہیں،بلکہ کامل ترین انسانﷺ کو چنا یعنی حضو رﷺ کا نام ِ نامی ان کے احباب میں سر فہرست تھا جبکہ شر ف ہم عمری بھی حا صل تھا۔ تمام مو رخین اس با ت پر متفق ہیں کہ سب سے پہلے ایمان لا نے افراد اس طرح تھے۔ ام المو نیں حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ خواتین میں،اور ان کے ذریعہ سے ان کے غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ اور بچوں میں علی ؓ۔ با قی دو کا ایمان لانے کاذکر ہم انشا اللہ ان کی سوا نح میں کر یں گے۔پہلے حضرت ابو بکر ؓکا ذکر اس لیئے کہ ہم وجہ تفصیلا ً اوپر بیا ن کر چکے ہیں۔
مو ر خین میں اس پر اختلا ف ہے کہ وہ ؓکب ایمان لا ئے؟ کچھ کہتے ہیں کہ وہ نزول ِ وحی پر ہی ایمان لے آئے تھے۔ کچھ کہتے ہیں کہ جب حضورﷺ نے دعویِٰ نبوت فرمایا۔ اس وقت وہ مو جو د نہ تھے اور سفر تجا رت پر شام گئے ہو ئے تھے۔ جب واپس آئے اور لو گو ں سے سنا تو وہ حضو رﷺ سے ملے اور تصدیق چا ہی۔حضو رﷺنے فر ما یا کہ ہا ں تمؓ نے صحیح سنا ہے مجھے اللہ تعا لیٰ نے اپنا نبیﷺ مبعوث فر ما یا ہے اور میں یہ کہتا ہو ں کہ اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کو ئی عبا دت کے لا ئق نہیں ہے۔ وہ یہ سن کر ایما ن لے آئے جبکہ پہلے والوں کا کہنا یہ ہے کہ نہیں! جب نزولِ وحی کے بعد حضو رﷺ گھبرا ئے ہوئے گھر پہو نچے تو حضرت خدیجہ (رض) نے حضرت ابو بکر ؓ کو سب سے قریبی دوست ہو نے کی وجہ سے بلا بھیجا اور وہ ؓفورا ً ایمان لے آئے۔اور علی ؓکے ایمان لا نے کے با رے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ چو نکہ حضو رﷺ کے زیر کفا لت تھے اور ساتھ رہتے تھے، تو انہوں نے جب حضو ؐر کو نما ز پڑھتے دیکھا تو پو چھا یہ کیا ہے! حضوؐر نے بتا یا کہ میں نبیﷺؓ ہو ں اور یہ ہم اللہ کی عبا دت کر تے ہیں۔ تو انہوں نے کچھ مہلت ما نگی مگر دوسرے روز ہی صبح کو وہ ایمان لے آئے اور نماز میں شا مل ہو گئے۔مگرحضورﷺ نے انہیں ہدایت فرما ئی کہ ابھی اپنے والد ابو طالب کو مت بتا نا۔ ہمارے خیال میں اس بات میں زیادہ وزن دکھا ئی دیتا ہے کہ وحی کے فو را ً بعد حضرت ابو بکر ؓ ایمان نہیں لا ئے۔
اگر وہ موجود بھی ہو تے تو بھی وہ ایمان نہ لاتے جیسے کہ ورقہ بن نو فل بھی ایمان نہیں لائے۔وجہ یہ تھی کہ ان ؓکا ایمان لا نا موخر اس لیئے رہاکہ اس وقت تک دعوت عام یا خا ص کا حضوﷺ کو حکم ہی نہیں ہو ا تھا۔ اہل ِ خانہ ؓکی بات دوسری تھی کہ انہوں ؓنے اپنی مر ضی سے حضور ﷺکی پیروی شروع کر دی یعنی وہ بھی عبا دات میں شامل ہو نے لگے۔
آپ ًروشنی حرا ً میں پڑھ چکے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو اپنے قبیلہ سے تبلیغ شروع کر نے کا حکم دیا۔اور حضو رﷺ نے تعمیل ِ حکم میں حضرت علی ؓسے فرمایا کہ تم سب کو دعوت دے آؤ اور کھانے پینے کا انتطام کر و علی ؑ سب کوبلا کر لا ئے، بہت تھو ڑا سا کھانا میسر ہو سکا جو کہ ایک چھو ٹے سے
بر تن میں تھا۔جس سے ایک آدمی کا بہ مشکل پیٹ بھر سکتا تھا اور پینے کے لیئے ایک پیالہ میں دودھ تھا۔جبکہ حا ضرین کی تعداد مو رخین نے چا لیس سے زیا دہ بتا ئی ہے۔ جب سب لو گ جمع ہوگئے تو حضو ؐر نے حضرت علیؓ سے فر مایا کہ سب کو پہلے کھلا ؤ پلا ؤ پھر با ت کر ینگے۔ جب سب سیر ہو کر کھاچکے تو حضوؐ ؐر نے ان سے پو چھا کہ تم نے مجھے کیسا پا یا؟ تو سب نے یک زبان ہوکرکہا کہ صا دق اور امین۔ تب حضو ﷺ نے ان کو دین کی طر ف دعوت دی جس کے جواب میں ابو جہل یہ کہہ کر بڑ بڑاتا ہو ا چلدیا کہ محمدﷺ تو تو بہت بڑا جادو گر ہے۔ کیا تو نے ہمیں یہ ہی جا دو دکھانے کے لیئے یہاں بلا یا تھا۔
چو نکہ وہ حضو رﷺ کا چچا تھا اور اس کا شمار خاندان کے بڑو ں میں ہوتا تھا لہذا اس کے اٹھنے سے با قی سب لو گ بھی اٹھ گئے۔ صرف حضرت علیؓ نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ میں آپؓ کا ساتھ دو نگا اور میں آپ پر ایمان لا یا۔یہاں اگر آپ اس کو اور پڑھ لیں کہ پہلی وحی کے بعد تقریبا ً چھ ماہ تک وحی نہیں آئی اور حضو ﷺ پریشان رہنے لگے کہ کہیں اللہ تعالیٰ نارا ض تو نہیں ہوگئے؟ پھر وحی نازل ہو ئی۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس کے بعد کہیں جاکر اہل، کنبہ کو دعوت دینے کا حکم ملا اور پھر کہیں جا کر قریش کو دعوت دینے کا اور دعوت ِ عام کا حکم ہو ا لہذا بعد والے مو رخین نے جو لکھا ہے وہ زیا دہ در ست معلوم ہو تا ہے۔واللہ عالم۔
(شمس جیلانی )بقیہ اگلی قسط میں پڑھئے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
زمرے
حالیہ تبصرے