وہ نبیوں(ص) میں رحمت لقب پانے والے (2) ۔۔۔ شمس جیلانی

اب ضرورت اس بات کی ہےکہ جو بھی بچا ہواسر ما یہ مو جو د ہے اس کو یک جا کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر مزید تحقیق کی بھی۔تو جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں حضو رﷺ نے چا لیس سا ل تک صرف اور صرف خد مت ِ خلق کی یہ ہی وجہ تھی کہ تما م پسما ند ہ لو گ ان کے ہمنوا بن گئے۔وہ غلا مو ں کی حما یت کر تے بو ڑھو ں کا بو جھ ڈھو تے لو گو ں کے ما ل کی حفا ظت کر تے لہذا لو گ ان کی دیا نت کی وجہ سے اما نتیں ان کے پا س رکھتے۔اور اس کے لیئے جس چیز کی ضرو ر ت ہو تی ہے وہ بھی پر ور دگا ر نے ان کو بد رجہ اکملیت عطا کی تھی وہ تھا جذ بہ ایثا ر۔اس کا پہلا مظا ہر ہ جو ہمیں پیدا ئش کے فو را ً بعد نظر آتا ہے وہ یہ تھا کہ اپنے دو دھ شر یک بھا ئی کو اپنے اوپر تر جیح،ما ئی حلیمہؓ فر ما تی ہیں کہ میں اگر انہیں دو دھ پلا نا بھی چا ہتی وہ اس وقت تک نہ پیتے جب تک میرا بیٹا نہ پی لیتا اور یہ اس اکملیت کا پہلا ثبوت تھا۔جو نظر آتا ہے۔اس کے بعد بڑے ہو ئے تو ما ئی حلیمہؓ کو کبھی انہو ں نے تنگ نہیں کیا نہ ضد نہ شرا رتیں بلکہ کو شش کر تے کہ ان کا ہا تھ بٹا د یں۔ اس کے بعد وہ دو ر آیا کہ وہ گھر سے با ہر تشر یف لے جا نے لگے، گو کہ یہ ان کی ڈیو ٹی نہ تھی کہ وہ کا م کر یں مگر وہ اپنے دو دھ شر یک بھا ئی بہنو ں کا ریو ڑ چرا نے میں ہا تھ بٹا تے۔اس کے بعد وہ مکہ آگئے۔ اور یہا ں غلا مو ں کے سا تھ ظلم دیکھا،ان کی وہ جو بھی مدد کر سکتے تھے کر نے لگے۔بو ڑھوں کا کا م کرتے ان کا بو جھ اٹھا لیتے۔جب جو انی کو پہو نچے تو انہو ں نے پو رے معا شرے کو بر ائی میں
ملو ث پا یا۔لہذا انہو ں نے ایک کمیٹی بنا نے پر سردا روں کو را ضی کر لیا اور وہ پسا ند ہ اور مظلو مو ں کو امدا د فرا ہم کر نے لگے۔اور اس میں وہ ﷺسب سے زیادہ فعال تھے۔اور یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہا حا لانکہ نبو تﷺ کا دعوہ کر نے کی وجہ سے سب ان کے دشمن ہو چکے تھے۔اس دو ر میں بھی ایک واقعہ ایسا ملتا ہے جس کو لو گو ں نے اور طر ح سے پیش کیا ہے وہ یہ تھا کہ ابو جہل نے ایک بدو سے اونٹ خریدا اور پھر نا دہند ہو گیا کسی نے حضو رﷺ کی طر ف اشا رہ کر کے کہا ان ﷺ کے پا س چلا جا وہ دلوا دیں گے۔ وہ حضورﷺ کے پا س آیا آپﷺ فورا ً اس کے سا تھ چلد دیئے اور جیسے ہی اس نے حضورﷺ کے ہمرا ہ اسے آتادیکھا ابو جہل نے فو را ً اس کو رقم لا کر دیدی۔اس آدمی کا کہنا اور حضو ر (ص) کا جا نا اسی معا ہدہ کے تحت تھا۔لیکن جن کو اس معا ہدہ کا علم ہی نہیں ہے وہ دوسری تو ضیحات پیش کرتے ہیں۔اب آگے دیکھتے ہیں کہ ایک ضعیفہ مکہ چھو ڑ کر جا رہی تھی حضورﷺ اس کا سا مان اٹھا لیتے ہیں۔ اور اس کو کارواں تک پہو نچا دیتے ہیں۔حضور ﷺاس سے پو چھتے ہیں کہ اس ضعیفی میں وجہ سفر؟ تو کہتی بیٹا میں اپنا ایما ن بچا کر لے جا رہی ہو ں۔یہا ں ایک شخص ہے محمدﷺ وہ بڑا جا دو گر ہے اور ایسا الفا ظ کا جا دو چلا تا ہے کہ لو گ اس کے مطیع ہو جا تے ہیں تم بہت اچھے آدمی ہو اس سے بچ کر رہنا اور ہا ں بیٹا! تمہا را نا م کیا ہے؟ حضو ر فر ما تے ہیں محمدﷺ اور وہ ایما ن لے آتی ہے۔ دوسرا واقعہ سنئے کہ ایک بو ڑھی جب حضو رﷺ وہاں سے گز ر تے تو انتظا ر میں رہتی ہے اور ان کے اوپر روزانہ کو ڑا پھینکتی، ایک دن وہ نظر نہیں آئی ہے تو حضورﷺ اس کے دروازے پردستک فر ما تے ہیں۔ وہ پو چھتی ہے کو ن ہو کیسے آئے ہو تو حضو ر فر ما تے ہیں میں محمد ﷺ ہوں آج تم نظر نہیں آئیں تو خیریت پو چھنے آگیا۔ اس نے بتا یا کہ میں بیما ر ہوں۔ اس وجہ سے نہ آسکی اور وہ شرمندہ ہوکرایما ن لے آتی ہے۔ حضورﷺ کے قتل کے منصو بے بن رہے ہیں مگر لو گ اپنی اما نتیں اب بھی ان (ص) ہی کے پا س رکھتے ہیں۔حضورﷺانتقام میں انہیں غصب نہیں فر ما تے ہیں۔ حتیٰ کہ جس را ت ہجرت فر ما تے ہیں ان اما نتو ں کو سپرد کر نے کے لیئے اپنے سب سے زیا دہ چہیتے چچا زاد حضرت علی ؓ کو خطر ہ میں
ڈا لد یتے ہیں۔جب کہ اِس کی تا ریخ میں ایک اور مثا ل بھی مو جو د تھی کہ بنی اسرا ئیل قبطیو ں کی اما نتیں سا تھ لے آئے تھے۔اس کے بعد جب ایک عرصہ کی جلا وطنی کے بعد بطو ر فا تح مکہ میں دا خل ہو تے ہیں۔دس ہزا ر جا نثا ر فو ج ہم رکا ب ہے۔ اب وہ لو گ لر ز رہے ہیں جنہو ں نے حضو رﷺ اور مسلما نو ں ؓ کی زند گی اجیرن کیئے رکھی حج اور عمرہ جس سے کسی کو بھی رو کنے کا رواج نہ تھا نہیں کر نے دیا۔ حضرت بلا ل ؓ کو ریت پر تپا نے وا لے غلا مو ں کو اس خطا پر مار نے وا لے کہ انہو ں نے اسلام کیو ں قبو ل کیا۔ حضورﷺ پر سا ت سا ل تک دا نہ پا نی بند کر نے وا لے سب خا ئف تھے اور پر یشا ن تھے کہ دیکھیں اب کیا ہو تا ہے کہ ایک منا دی کرنے والا اعلان کر تا ہے کہ جو حرم میں ہو وہ محفو ظ ہے، اپنے گھر میں بیٹھا رہے وہ محفو ظ ہے۔ جو حضورﷺ پر اور حضرت بلا ل ؓ پر ظلم ڈھا نے والےابو سفیا ؓن کے گھر میں پنا ہ لے وہ بھی محفو ظ ہے۔ حضو رﷺ حرم میں دا خل ہو کر فر ما تے ہیں کہ آج کے رو ز کو ئی انتقام نہیں میں سب کو معا ف کر تا ہو ں۔لو گ جو ق در جو ق بیعت کے لیئے حا ضر ہو رہے ہیں ان میں ابو سفیا ن کی بیو ی ہندہ بھی ہے۔ جس نے حضورﷺ کے چچا کا کلیجہ نکا ل کر چبا یا تھا۔ وہ جا تے ہو ئے ڈرتی ہے منہ چھپا تی ہے مگر معا فی لے کر نکلتی ہے۔ عکرمہ بن ابو جہل کی بیو ؓ ی آکر کہتی ہیں جو مسلمان ہیں اور مدینہ ہجرت کر چکی ہیں۔ کہ عکر مہ اور صفوان بن امیہ بھا گ گئے ہیں اگر آپ انہیں معا ف کر دیں۔ تو میں انہیں لے ‘
آؤ ں حضورﷺ فر ما تے ہیں لے آؤ معا فی ہے۔ یہ دو نو ں وہ تھے جو کہ اس دن بھی جنگ سے بعض نہ آئے اور خا لدؓ بن ولید سے بھڑ گئے اور جب شکست کھا ئی تو فرار ہو گئے۔ عکر مہ بھا گ جا تا ہے مگر صفوان کو جہا ز نہیں ملتا ہے لہذا وہ انؓ کو مل جا تا ہے اس کو معا فی کا یقین نہیں آتا مگر ان کے یقین دلا نے پر چلد یتا ہے جب در با ر ِ رسا لت میں پہو نچتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ایما ن دو ما ہ بعد لا ؤنگا اگر میرا دل چا ہا تو حضو رﷺ فر ما تے ہیں تمہیں دو ما ہ نہیں چا ر ما ہ کی مہلت ہے۔وہ ایک ما ہ کے بعد ہی غزوہ حنین میں مدد کر تا ہے اورایما ن لے آتا ہے۔ عکر مہ مدینہ میں آکر مشرف بہ اسلام ہو تا ہے۔ حبشی جس نے حضر ت حمزہ ؓ کودھو کے سے اپنے حر بہ سے شہید کیا تھا چھپتا پھر رہا ہے کیو نکہ اب پو را عرب اسلام میں دا خل ہو چکا ہے اس وقت کو ئی اسے مشو رہ دیتا ہے کہ کمبخت رحمت سے نا امید کیو ں ہے؟ وہ تو رحمت ِ عا لمﷺ ہیں۔جا اور جا کر انکے ﷺسا منے کلمہ پڑھے لے وہ جا تا ہے اس حا لت میں کہ کلمہ اس کی زبا ن پر ہے حضو رﷺ اس کو بھی معا ف کر دیتے ہیں۔اس ہدا یت کےساتھ کہ آئندہ میرے سا منے نہیں آ نا کہ میں بھی انسا ن ہو ں اور میرے منہ سے مبا دا کو ئی غلط با ت نکل جا ئے۔ کیا ایسا انسان دنیا نے کو ئی اوردیکھا؟ اسی لیئے حق تعا لیٰ نے فر ما یا۔ وما ارسلٰنک الارحمت اللعا لمین (اے محمد ﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہا نو ں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

شائع کردہ از Uncategorized | تبصرہ کریں

وہ نبیوں میں رحمت ﷺلقب پا نے وا لا(١) ۔۔۔شمس جیلانی ونیکور

پرسوں وہ دن طلوع ہو نے والا ہے جس میں کہ سر کا ر ِ دو عا لم محمد مصطفٰی ﷺکی ولادت با سعا دت ہو ئی۔ان کے با رے میں اتنا کچھ لکھا گیا کہ شا ید ہی کسی کے با رے میں لکھا گیا ہو۔ جو آپ ہر سا ل رو ایتی مضا مین میں پڑھتے ہیں لیکن جب کو ئی شخصیت ہمہ صفت ہوتو اس کا کو ئی نہ کو ئی پہلو وہ اہمیت نہیں حاصل کر پا تا اور نگا ہو ں سے اوجھل رہ جا تا ہے۔ جوبعض اوقات اس کی سب سے اہم خصو صیت ہو تی ہے اور دب جا تی ہے۔یہ ہی معا ملہ آقا ئے نا مدارﷺ کے با رے میں ہے کہ وہ ایک
کا مل شخصیت تھے۔ لہذا لو گو ں نے انہیں بطو ر نبیﷺ پیش کیا، بطو ر بہترین سپہ سالار ﷺپیش کیا، بہترین منتظم ﷺپیش کیا، بہترین منصفﷺ پیش کیا مگر کسی بھی اسکا لر نے انﷺ کے اس وصف پر زیا دہ روشنی ڈا لنے کی کوشش نہیں کی جو اس دور میں اور ان ﷺکی شخصیت میں نا در الو جو د تھا۔ مگران ﷺکے خا لق کی نگا ہ میں سب سے زیا دہ اہم تھا۔ وہ تھیں دو صفا ت جو قدرتی طو ر پر ہمیشہ ایک دو سری سے جڑی ہوئی ہو تی ہیں اور وہ ہیں خلق ِ عظیم اور رحمت یعنی با الفا ط ِ دیگر ایک انتہا ئی اچھا اخلا ق اور رحیما نہ طبیعت جو خالق کی نگا ہ میں سب سے ا ہم تھیں۔جس نے بے حسا ب مخلو ق تخلیق کی اور ان سب میں سے ایک کا مل انسا ن پیدا کیا جس پر تما م اکملیت ختم کر دی اور اس میں سے اس کے نز دیک سب سے زیا دہ جو چیز اہم تھی وہ اس نے چن لی جو کہ رحمت تھی اور حضو رﷺ کی اکملیت کے حسا ب سے وہ بھی بہ د رجہ اتم عطا فر ما ئی۔لیکن حضورﷺ کا دور وہ دو ر تھا جس میں حکمرانو ں کی عظمت دو سری چیزو ں کی بنا پر ما نی جا تی تھی۔ وہ تا ریخ دانوں نے
حضو رﷺ میں پا ئیں اورچن لیں لہذا جو جمع کنند گان کے خیال میں ا ہم تھیں اور لو گو ں کے سینو ں میں محفو ظ رہ گئیں تھیں ان کو محفو ظ کرلیا گیا۔کیو نکہ ان کو یہ علم نہیں تھا کہ ایک دو ر ایسا آئے گا۔ جس میں سیرتﷺ کے اِس حصہ کا کھو ج لگا نا ہو گا جس کو خدمت ِ خلق، ایثار اور قربا نی کہتے ہیں اور اس کو ایک وقت میں وقت کے لحا ظ سے سب سے زیا دہ اہم ہونا تھا اور اسےسب سےزیادہ اہمیت دی جا ئے گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حضو ر ﷺکے چا لیس سا لہ کا رنا مے جو کہ لا کھو ں کی تعداد میں ہو نا چا ہیئے تھے کیو نکہ وہ پہلے چا لیس سال خدمت ِ خلق پر محیط تھے۔ ان میں سے چند کے سوا کچھ کہیں درج نہیں کیو نکہ اس دور میں نہ کا غذ تھا نہ قلم اور نہ خوا ندہ لو گ۔ وہ یا دا شتیں بھی اسی طرح سینو ں میں تھیں جس طر ح دوسرے کا ر نامے مگر جمع نہ کر نے کے با عث جا نے والوں کے سا تھ وہ بھی چلی گئیں ۔ اور ان کا اب چو دہ سو سا ل کے بعد سرا غ لگا نا نا ممکن ہے۔ جیسی جیسی ضرورت ہو تی گئی اس پر لو گ حضورﷺ کے وصال کے بعد متو جہ ہو تے گئے۔ مثلا ً ارکا ن اسلام اور روزمرہ کا کا رو با ر چلا نے کے لیئے احا دیث اورسنت کی ضرورت پڑی اور لو گو ں نے محسو س کیاکہ صحابہؓ کرام انتقال فرماتے جا رہے ہیں اور وہ بھی سا تھ میں کم ہو رہی ہیں۔تو ان کو اکھٹا کر نا شروع کیا اور ایک ایک حد یث کے لیئے میلو ں کاسفر کیا مگر سیرت کے اس حصہ کی اس وقت کو ئی خا ص ضرورت محسو س نہیں کی گئی۔ لہذا کسی نے ان کو مر تب بھی نہیں کیا اور اب جبکہ دنیاہر چیز کاثبو ت ما نگتی ہے۔ جو انٹر نیٹ کے ذریعہ ایک منٹ سے کم عرصہ میں دنیا کے اس کو نے سے اس کو نے تک پہو نچ جا تا ہے۔ اگر سیرت کے کسی طا لب علم سے یہ سوا ل پو چھا لیاجا ئے کہ ً حضور ﷺ کو ًرحمت اللعالمین ً کیو ں کہا گیا؟ تو وہ بغلیں جھا نکتا نظر آئے گا۔ اللہ تعا لیٰ مو لا نا حا لی ؒ کی قبر کو منو ر فر ما ئے کہ انہو ں نے سب سے پہلے مسدس ؔحا لی میں یہ اشعارکہہ کر حضورﷺکا بڑا خو بصو ر ت تعا رف پیش کیا ہے ؎وہ نبیوؑ ں میں رحمت ﷺلقب پا نے وا لا وہ اپنے پرا یوں کے کا م آنیوالا۔ حرا سے اتر کر سو ئے قوم آیا اوراک نسخہ کیمیا سا تھ لا یا “ ان اشعار میں جو واقعا ت جس طر ح رو نما ہو ئے اسی تر تیب سے مو لا نا نے پیش کیئے ہیں۔ یعنی سب سے پہلے خدمت ِ خلق رحمت،شفقت اور مروت دیا نت وغیرہ جو چا لیس سا ل تک حضورﷺ کا طر ہ امتیا ز تھی۔ یعنی غلا مو ں کے
حما یتی بو ڑھو ں کے مدد گا ر اور مظلو مو ں کی داد رسی انﷺ کا شیوہ تھا۔ جس کے لیئے قر آن نے کہا کہ اس کا عا مل کبھی فنا نہیں ہو گا۔ حضو رﷺنے تلقین فر ما ئی کہ خد مت کرو ،خدمت کرو، خدمت کرو۔ اور ایک حدیث میں فر ما دیا “کہ وہ انسا ن ہی نہیں جو انسا نو ں کے کام نہ آئے“ چو نکہ ابتدائی دور میں حضورﷺ کے پا س سوا ئے خد مت خلق کے کو ئی اور ذمہ دا ری نہیں تھی لہذا یا تو وہ لو گو ں کی خد مت میں وقت گزا رتے تھے یا پھر عبا دت میں۔ ان میں سے تھو ڑی سی مثا لیں اگر کسی کا
مطا لعہ وسیع ہے تو کہیں کہیں سیرت کی کتا بو ں میں بکھری ہو ئی ملیں گی لیکن افرا ط سے اس لیئے نہیں ہیں کہ جیسا ہم نے پہلے عرض کیا کہ اس پر تو جہ نہیں دی گئی۔ سیرت نگا روں کے نز دیک وہ حصہ زیا دہ اہم تھا جو نبوتﷺ پر مبعو ث ہو نے کے بعد کے دو ر پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے کے واقعا ت اگر کہیں نظر بھی آئیں۔ تو عا م قا ری یو نہیں پڑھ کر گزر جاتا ہے۔کیو نکہ اس کے لیئے کو ئی علیٰحدہ با ب مو جو د نہیں۔ مگر آج کے دو ر میں ان ہی کی سب سے زیا دہ ضرو رت ہے کیو نکہ یہ دو ر خدمت ِ خلق کا دور ہے جس کی ابتدا حضورﷺسے ہو ئی تھی جو کہ ان کا طرح امتیاز تھا۔ اورصفا ت کی طر ح اکملیت کے در جہ پر پہو نچی ہو ئی تھی۔ ہما ری صو رت حا ل یہ ہے کہ یہ کسی بھی مسلما ن سے پو چھیں کہ وہ کیا تھے تو فخر سے کہے گا کہ وہ“ رحمت اللعا لمین تھے“مگر وہ خصو صیا ت کیا تھیں جن کی بنا پر وہ رحمت اللعا لمین کہلا ئے اور خو د انﷺکے خا لق نے ان کو رحمت اللعا لمین فر ما یا۔اس پر بڑا سے بڑا عا لم چند مثا لو ں کے بعد خا مو ش ہو جا ئے گا۔ جبکہ غیر مسلم حضورﷺ کے زما نے سے لے کر آج تک وہ تمام چیزیں جمع کر تے آئے ہیں۔ جو گمرا ہ کن اور جھو ٹ کا پلندہ تھیں۔ تاکہ حضو رﷺ کے اوصاف حمیدہ کے خلا ف کسی طر ح کچھ بھی ثا بت کیا جا سکے اور ہم اس کے جو اب کے لیئے آج دلا ئل سے مسلح نہیں ہیں لہذا بعض اوقا ت ہم جھنجھلا ہٹ کا مظا ہرہ کرتے ہیں اور ڈنڈے سے کام لیتے ہیں۔جو کہ قطئی غلط رویہ ہے اس لیئے کہ دلا ئل کا جو اب دلا ئل سے آج کی دنیا میں پسند کیا جا تا ہے۔(بقیہ کل پڑھئے)

شائع کردہ از shukhsiyat | ٹیگ شدہ | تبصرہ کریں

سرکار کے اجداد کیسے تھےﷺ۔۔۔ شمس جیلانی

بتاؤ ں تم کو کیا اے لوگوں میرے سرکارﷺ کیسے تھے
لکھا لا ئے رب سے تھے سرداری سردارﷺایسے تھے
یہ تھااجداد کا شیوہ کہ وہ گزرتے خوشبو پھیلاتے
تھے چمکتے مثل ِسورج وہ صاحب ِکردار ایسے تھے
میں نے اپنے اس قطعہ کو دو حصو ں میں تقسیم کیا ہوا ہے پہلے دو اشعار میں حضور(ص) کا ذکر ہے اور دوسرے ۤآخری دو اشعار میں ان (ص) کے اجداد کا ذکر ہے۔ ابتدا یہاں سے ہو تی ہے کہ حضرت حاجرہ سلام اللہ علیہا حاملہ ہو جاتی ہیں تو یہ بات حضرت سارہ کو بہت ہی گراں گزرتی ہے کیونکہ وہ پہلی بیوی تھیں اور اولاد سے محروم تھیں لہذا اس گھرانے کو چپقلش نے آگھیرا کیونکہ وہ پہلی بیوی تھیں۔ جبکہ حضرت حاجرہ (س) کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تحفہ میں اسرائیلیات کے مطابق دوران ہجرت کسی بادشاہ نے دیا تھا۔ جب وہ تنگ ہوگئے تو انہیں لیکر وہ مکہ تشریف لا ئے جہاں کوئی آبادی نہیں تھی کیونکہ پانی ہی نہیں تھا جبکہ علاقہ پہاڑی اور ریگستانی تھا۔ وہ (ع) جب انہیں چھوڑ کرواپس جانے لگے تو انہوں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام سے تین مرتبہ پوچھا کہ آپ مجھے یہاں بے آب اورگیاہ میدان میں کس وجہ سے چھوڑے جا رہے ہیں تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیاپھر انہوں نے کہا کہ آپ اپنی مرضی سے یا اللہ کے حکم سے یہ کام کررہےتب انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کا حکم ہے۔ پھر وہ مطمعن ہو گئیں اور انہوں نے فرما یا کہ اگر اللہ کا حکم ہےتو سر آنکھوں پر آپ تشریف لے جا ئیں اللہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ حضرت اسمعیل علیہ اسلام گود میں تھے انہیں انہوں نے زمین پر لٹا دیا اور خود پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے لگیں اس طرح سات چکر لگا ئے اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کواتنے پسند آئے کہ قیامت تک لئے اراکان حج میں شامل فرما دیئے ۔ادھر جب حضرت اسمعٰیل علیہ السلام نے زمین پر مسلسل پاؤں مارے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حکم سے پانی نکل آیاجس کو حضرت حاجرہ (س) نے مٹی اور پتھروں کاحوض بنا کر اس میں جمع کر لیا۔ اُدھر دوسری طرف بنو جرہم کا قبیلہ وہاںسے گزر رہا تھا اس نے جب پرندے فضا میں اڑتے دیکھے تو وہ اس طرف چلا آیا اس نے وہاں آباد ہونے کی درخواست کی تو انہوں نے اس شرط پر اجازت دیدی کہ حوض میری ملکیت میری رہے گا۔ اس طرح اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی اس متوکل بندی کو چاہ زمزم کامالک بنا دیا۔ کیونکہ اللہ نے قرآن میں فرما یا ہے کہ “ اللہ متوکلین کے ساتھ۔ ہے“ اس واقعہ میں کئی سبق ہیں مومنین کے لئے۔ اس وقت تک بلکہ اس کے بعد تک کسی کوپتہ نہیں تھاکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا آئندہ کے لئے منصوبہ کیاہے۔ جبکہ ایک حدیث کے مطابق جو طبری میں بیان ہو ئی اس سے پہلے کعبہ یہاں فرشتوں نے بنا یا تھا اور وہ ٹینٹ کی شکل میں تھا۔ اس کے بعدخود آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا لیکن مورخین کا خیال ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا طوفان اسے بہا لے گیا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اسے دنیا بھر کا قبلہ بنا ناتھا اور اس کا منصوبہ کام کررہا تھا حضور (ص) کے جد امجد حضرت اسمعیل علیہ السلام کو اس کا امام بننا تھا قدرت نے ان کو یہاں تک پہنچا دیا۔ کیونکہ ۤآگے چل کر ان ہی کی اولاد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا ہونا تھا اور تکملہ ِ انسانیت جس کی ابتدا آدم علیہ السلام ہوئی وہ نبی آخر الزمان پر ختم ہونا تھی۔ جبکہ دوسری طرف یعقوب علیہ السلام حضرت سارہ کے بطن سے بعد میں پیدا ہوئے۔ جنکو یہودی حضرت اسرائیل کہتے ہیں۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام امام الا انبیا بنے اور انہوں نےاللہ کے حکم سے کعبے کی بنیا د رکھی اور دونوں باپ بیٹوں نے ملکر اللہ کا گھر بنایا جبکہ پہلے اسکا نام بیت العتیق تھا اور اس طرح حضور (ص) کو اپنے دادا کی دعا ہونے کا شرف حاصل ہوا۔(بقیہ اگلی قسط میں کل پڑھیئے)

شائع کردہ از Uncategorized | تبصرہ کریں

ہم سفر کا آخری سفر

شائع کردہ از سیرت | ٹیگ شدہ | تبصرہ کریں

شیخ ِ طریقت حضرت مو لانا مفتی وقار الدین قادری رحمت اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث دار العلوم امجدیہ۔۔ شمس جیلانی

حضرت مو لانا مفتی وقارالدین صا حب یکم جولائی١٩١٥ءمیں مو ضع پو ٹاکھمریا ضلع پیلی بھیت یو پی میں آل ِ ذو رعین کے ایک بہت بڑے زمیندار گھرانے میں پیدا ہو ئے جو کہ کئی مو اضعات کا مالک تھا۔ ان کے والد کا اسم گرامی حمید الدین تھا جن کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن کے نام امین الدین ،تا ج الدین، وقار الدین اور صغیر الدین تھے۔ حضرت مو لانا وقار الدین صا حب کا نمبر اپنے بھا ئیو ں میں تیسرا تھا۔ ان کے والد نے تین بچو ں کو انگریزی تعلیم سے آرا ستہ کیا امین الدین صا حب ، تا ج الدین صا حب نے ریلوے میں ملا زمت اختیار کی اور صغیر الدین صاحب فو ج میں چلے گئے۔ چارو ں صاحبزادوں کا انتقا ل کراچی میں ہوا اور وہیں آسودہ خا ک ہیں ۔ جبکہ حضرت مو لانامرحوم کا رجحان شروع سے ہی دین کی طر ف تھا۔ لہذاان کے والد نے جو خود بھی ایک مذہبی آدمی تھے۔ ان کی خواہش کا احترام کر تے ہو ئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا صا حب مر حوم کے قائم کر دہ مدرسہ میں جو کہ بی بی جی مسجد بریلی میں قائم تھا اور اسوقت تک ایک بڑی در سگاہ بن چکا تھا ، اس میں ان کوبرائے دینی تعلیم دا خل کر ادیا۔ وہاں سے انہو ں نے دستار فضیلت جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے١٩٤٤ ءمیں حاصل کی اور اس کے بعد وہیں در س دینے لگے۔ اسوقت وہاں حضرت مو لانا سردار احمد صا حب( حال وارد فیصل آباد ) انچا رج تھے ۔ یہ سلسلہ ١٩٤٧تک جاری رہا ۔ پاکستان بننے کے بعد وہ نرا ئن گنج( ڈھاکہ )ہجرت فر ما گئے پھر چٹا گانگ میں اپنا دار العلوم قائم فر ما یا اور ایک اچھی خا صی تعداد طالب علموں کی اپنے گرد جمع کر لی جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں سے تجا وز کر گئی۔ چو نکہ انکو چار و ں سلسلوں سے خر قہ ِخلا فت ملے ہو ئے تھے۔ لہذا وہاں انہو ں نے اچھے خا صے مر ید بھی بنا ئے۔ کیو نکہ وہاں اسکی ضرورت بھی اسلیئے تھی کہ جہا لت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ علم ِدین نہ ہو نے کے برا بر تھا۔ ہندوستان سے سال کے سال علما ءصا حبان تشریف لا تے اور اپنا بھتہ وصول کر کے واپس چلے جا تے۔ لو گوں کو فا تحہ دینا اور نماز ِ جنازہ پڑھانابھی نہیں آتی تھی۔جو تھوڑی بہت شد بدھ رکھتے تھے، وہ رقم لیکر نماز ِ جنازہ پڑھاتے تھے۔ لہذا جہاں لا وارث میتوں کے کفن دفن کے لیئے چندہ ہو تا تھا وہیں مولویصاحب کی فیس بھی نماز جنازہ پڑھا نے کی مد میں چندے میںشامل ہوتی تھی۔
فاتحہ کے لیئے اکثر ں نذرانہ دیکر جس کی جنتی گنجا ئش ہو تی ایک سال دو سال کی فا تحہ ایک بو تل میں پانی بھر کر پھُنکوا لیتا۔اور جب فا تحہ دلانا ہو تی تو اس میں سے چند قطرے ٹپکا دئے جاتے اور فا تحہ ہو جاتی۔ سب سے زیادہ پڑھا لکھا ضلع نوا کھا لی کا سمجھا جا تا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہا ں گیارہ لا کھ آبادی ہے اور اس میں سے پانچ لا کھ مولوی ہیں ۔ وہ واحد ضلع تھا جو علما ءکے معاملے میں خود کفیل تھا۔ ان کے علم کے معیار کااندا زہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کشور گنج ضلع میمن سنگھ میں میرے پاس ایک ملا زم نوا کھالی کا تھا۔ رمضان آگئے میں نے اس سے پو چھا نظام الدین تم قر آن کی تلاوت نہیں کر تے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اگر میں قر آن پڑھا ہوا ہوتا تو یہا ں کیو ں آتا ،اپنے ہا ں کی کسی مسجد میں مو لوی نہ لگ جاتا۔ اس وقت وہاں علما ءمیں ایک ہی مشہو ر نام تھا جو کہ دیو بند کے فارغ التحصیل تھے ۔ ان کا نام تھا مو لانا اطہر علی جو کشور گنج میں رہتے تھے اور انکا دار العلوم بھی تھا۔ جو بعد میں نظامِ اسلام پا رٹی کے بانی بنے ۔یہ صورت حا ل تھی جب حضرت مو لا نا مفتی وقار الدین صا حب نے وہاں علم کا چشمہ جا ری کیا ۔ وہاں آپ اکثر لوگوں کے نام کے ساتھ مو لوی لکھا دیکھیں گے، مگر اس سے آپ ان کو دینی عالم نہ قیا س فر ما لیں۔ کیو نکہ یو پی اور بنگا ل میں مسلما ن وکیلو ں کو بھی مولوی صاحب کہا جا تا تھا ۔اس لیئے کہ وہ شریعت کا قانون پڑھے ہو ئے ہو تے تھے، اور عدالتو ں میں ور اثت، طلا ق وغیرہ کے مسلما نوں کے مقد ما ت لڑتے تھے۔
مو لا نا مفتی وقار الدین صا حب وہاں تئیس چو بیس سال تک علم کے در یا بہا تے رہے اور اس دوران ، چرا غ سے چراغ جلا کر بہت سے عالم اور مدرسے قائم کر دیئے حتیٰ کہ مشرقی پا کستان میں بے چینی پیدا ہو ئی اور ان کے شا گردوں نے یہ را ئے دی کہ اب آپ کا یہا ں رہنا مناسب نہیں ہے۔ مگر مو لانا کو اپنے مشن سے عشق تھا لہذا انہوں نے پہلے تو ان کا مشورہ نہیں مانا۔ اور شدت سے مخالفت کی مگر ایک دن نہ جانے کیا ہوا کہ صبح کو جب سو کر اٹھے تو فر مانے لگے ۔ میں نے مغربی پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ جو انکے عقیدتمند تھے انہو ں نے اخذ کر لیا کہ حضرت کا یہ فیصلہ کوئی راز رکھتا ہے اور شاید مشرفی پاکستان پر کو ئی بڑی تبا ہی آنے والی ہے ۔ وہاں کی در سگاہ آپ نے شاگرد وں کے سپرد کی خود چلے آئے ۔ انکے شا گردوں کو دکھ تو بہت ہوا مگر انہوں نے تعرض اس لیئے نہیں کیاکہ وہاں اس سے پہلے جن لوگوں کی پاکستان بننے سے پہلے اجا رہ داری تھی۔ وہ ان کی جان کے درپے تھے۔ کہ انہوں نے علم کو عام کر کے ان کا کاروبار خراب کر دیا ، شاگردوں کو خطرہ یہ تھا کہ اس بد امنی کا فا ئدہ اٹھا کر وہ کہیں ان کو نقصان نہ پہو نچا ئیں ۔
یہا ں آکر دستگیر میں انہو ں نے ایکسو بیس گز کا ایک پلا ٹ خرید لیا۔ اسوقت اسکی قیمت صرف سات سو پچاس روپیہ تھی وہ بھی چار اقساط میں اور پھر اس پر دو کمروں کا مکان بنا لیا، جس میں وہ تا حیات رہتے رہے ۔ کیونکہ وہ انتہائی قنا عت پسند انسان تھے۔ ایک زمانے میں ضیا ءالحق نے بہت سے علما ءکو اسلام آباد میں پلا ٹ بانٹے اور انہوں نے بیچ کر پیسے بھی بنا ئے ۔وہ اس وقت رویت ِ ہلال کمیٹی کے متعلق تھے مگر انہوں نے نہ لیا اور کمیٹی کی رکنیت بھی جب اس نے بغیر چاند دیکھے پو رے ملک میں عید کروانے کا حکم دیا، تو اس کے منہ پر ما ر کر چلے آئے۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بہت سے لوگ لا پتہ ہو گئے تھے ۔یا جمع پونجی کہیں دبا کر مر گئے تھے، جس کی ورثا کو خبر نہیں تھی۔ مو لانا ایک تعویز ان کو عطا فر ما تے جو کہ ایک چو زے کے پیر میں باند ھنا ہوتا اور اس کو جب وہاں چھو ڑا جا تا تو وہ دفینے پر جا کر کھڑا ہو جا تا۔ اس طر ح بہت سے دفینے ورثا کو پہنچا ئے ،مگر خود کسی سے کچھ نہ لیتے تلاش گم شد گان میں بھی انہوں نے لو گوں کی اپنے علم سے کا فی مدد فر مائی ۔ اور چھوٹی چھو ٹی کرا مات تو اتنی ہیں کہ اس کے لیئے ایک الگ کتاب چا ہیئے ۔
یہاں جب وہ مشرقی پاکستان سے تشریف لا ئے تو مو لا نا ظفر علی نعمانی مرحوم دا ر العلوم امجدیہ کے مہتمم تھے جوکہ ان کے بڑے معتقد تھے ۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک مر تبہ اس خاکسار سے پو چھا کہ کیا آپ لوگ بھی ان کی اتنی ہی عزت کرتے ہیں، جتنی ہم کر تے ہیں۔ تو راقم نے جواب دیا کہ الحمد للہ ہم لوگ ان کی آپ سے زیادہ عزت کرتے ہیں۔ کیونکہ میں ان کے علمی مقام سے تو واقف تھا ۔مگر اس سے واقف نہ تھا کہ وہ اپنے دور کے قطب بھی ہیں ۔ بعد میں نعمانی صاحب نے مولانا سے در خواست کی اب وہا ں تو آپ کا واپس جا نا مشکل دکھا ئی دیتا ہے۔ آپ علم کی روشنی یہا ں پھیلا ئیے اور وہ دار العلوم امجدیہ سے منسلک ہو گئے پھر آخری دم تک وہیں در س و تدریس کے ذریعہ دارالعلوم امجدیہ کی خد مت کرتے اور علم کی رو شنی پھیلا تے رہے۔ الحمد اللہ یہا ں بھی ان کے شاگردوں کی تعداد ہزارو ں میں ہے ۔مگریہاں ان کے مریدین کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔نہ جانے کیوں وہ یہاں آنے کے بعد مرید بنا نے میں بڑے محتا ط ہو گئے تھے اور بڑی مشکل سے کسی کو مر ید بنا تے تھے ۔ مغربی پاکستان ہجرت کرنا مو لا نا کے خاندان کی یہ چو تھی ہجرت تھی۔ پہلی وہ جب کے ان کے آبا و اجداد یمن سے آکر سر سہ(مشرقی پنجاب) میں آباد ہو ئے ،دوسری جب کھمر یا میں سر سہ سے آکر آبا د ہو ئے اور تیسری مشرقی پاکستان تشریف لا ئے اور چھو تھی یہ یعنی کراچی آمد۔ سرسہ سے ان کے جد امجد جناب دوست محمد صا حب وہاں پر ١٧٨٠ءمیں آکر آباد ہو گئے تھے۔ ان کا شجرہ نسب اس طر ح ہے ۔ وقار الدین ابن ِ حمید الدین ابن ِ فخر الدین ابن ِ محمد یو سف ابن ِحسن محمد ابن ِ شاہ محمد ابن دوست محمد۔اس سے آگے کاشجرہ نہیں ملتا ۔مگر محشر انبا لوی مرحوم کے مطابق قبیلہ آل ِ ذور عین جس کے وہ فرد تھے حارس الرا ئش کے زمانے میں یمن سے آکر پنجاب میں آبادہو ا تھا۔
راقم حروف کا ان سے بہت ہی پرا نا رشتہ تھا در اصل کھمریا جس کا میں نے ذکر کیا ہے، وہا ں سے میری پر دادی میری والدہ اور میری بیوی اور ایک بہو کا وہیں سے تعلق تھا۔ اور ان کے برادر ِ حقیقی تاج الدین صا حب میرے حقیقی خا لو تھے۔ اس کے بعد ان کے بھتیجے ،ہما یوں تاج میرے داماد اور پھر میری چھو ٹی بیٹی عظمٰی کی ان کے صا حبزادے جمیل وقار کے ساتھ شادی ہو ئی اور اس کے بعد میرے چھو ٹے بھا ئی اظہر کمال سے جو کے آجکل جد ہ میں ہیں ان کی صا حبزادی نگہت کی شادی ہو ئی اور بھتیجے نیر وقار کی میری بھانجی حنا سے شادی ہو ئی ۔ان رشتوں کی بناپر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے انہیں کتنے قریب سے دیکھا ہو گا ۔
نہ جا نے کیا با ت تھی کہ وہ شروع سے ہی مجھے اور میری بیوی کو بہت ہی پسند فر ما تے تھے اور ہمیشہ میرے بتا ئے ہو ئے دینی مسائل کی درستگی کی تو ثیق فر ماتے تھے ۔لیکن مجھے ان کے زیادہ قریب آنے کا مو قعہ جب ملا جبکہ میں نے ١٩٧٤ ءمیں تعلیم کی وجہ سے بچو ں کو میر پور خا ص سے کراچی منتقل کردیا اور اپنے خا لو تاج الدین صا حب کی کوٹھی کرا یہ پر لی، کیو نکہ انکے کنیڈا چلے جانے کی وجہ سے مو لانا ان کے مختار ِ عام تھے لہذا مجھے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ آدمی چونکہ لین دین سے ہی پر کھا جا تا ہے۔ میں نے انہیں قریب سے دیکھا اور مجھے انہوں نے پر کھا اور رات ،دن ہم میں محبت بڑھتی گئی ۔ جبکہ اسوقت تک یہ سارے رشتے نہ تھے صرف وہی ایک رشتہ تھا کہ وہ خالو کے بھا ئی تھے ۔ باقی رشتے انہیں کی پسندیدگی کی بنا پر بعد میں طے پا ئے ۔لیکن ان رشتوں سے بھی پہلے وہ رو حانی رشتہ قائم قائم ہو ا کہ مجھے ان سے شر ف ِ بیعت حا صل ہو گیا۔
قصہ یوں ہے کہ مجھے اللہ نے بچپن سے تھوڑا سا نوا زا ہوا تھا جس کی ابتدا ءیہ تھی کہ میں جب پیدا ہو ا تو میرے نا نا فدا حسین صاحب نے حضرت مہر بان علی شا ہ (رح) اکو ڑہ خٹک والو ں سے در خواست کی کہ اس بچے کا نام رکھد یجئے جوکہ میری پیدا ئش پر خو ش قسمتی سے وہاں موجود تھے۔ تو انہو ں نے میرا نام محمد شمس الدین جیلانی رکھا۔ لو گو ں نے کہا اس نام کے لو گ بڑے جلا لی ہو تے ہیں،تو انہوں نے فر ما یا کہ اس کا نام توتبدیل نہیں ہو سکتا، البتہ آپ احمد لگا لیں تو جمالی ہو جا ئے گا ۔ لہذا میرا نام اس زمانہ کے رواج کے مطابق محمد شمس الدین احمد جیلانی رکھا گیا۔ پھر جب میں نے اپنی ادبی زندگی میں قدم رکھا ،تو میں نے حضرت عبد القادر جیلانی سے عقیدت کی بنا پرادبی نام شمس جیلانی اختیار کر لیا۔ یقیقنا ًیہ اس نام کی بر کت تھی کہ وہی مشہور ہوا اور اب سب اسی نام سے جا نتے ہیں ۔جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہو ں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا شروع سے ہی میرے اوپر کر م تھا کہ اس نے ایک ہدا یت یافتہ زندگی عطا فر ما ئی جس میں میری نا نی کی تربیت کا بڑا دخل تھا کہ وہ خود ایک ولی صفت خاتون تھیں میرے کانوں میں انکی میٹھی آواز ہمیشہ رس گھولتی رہتی تھی کہ حضور (ص) ایسا کرتے تھے اور تم بھی ویسا ہی کیاکرو۔ میں نے کو شش کی ،اللہ سبحانہ تعالیٰ نے نوازا اور میں نے کچھ مراحل جوانی تک حضرت مہر علی شاہ (رح)کی رہنما ئی میں ہی طے کیئے جبکہ انکا وصال اس وقت ہو گیا تھا جبکہ میں سا ڑھے چار سال کا تھا۔ اس کے بعد رہنما بدلتے رہے جن کی میں تفصیل میں جانا منا سب نہیں سمجھتا۔
مگر جیسے کہ بض پیغمروں (ع)تک کی یہ خوا ہش رہی ہے،کہ کچھ اپنی ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھیں، میری بھی یہ خوا ہش تھی کہ میں بھی بظاہر کسی سے بیعت ہو جا ؤ ں۔ مر د حق کی تلا ش میں ہر ایک کے پیچھے بھا گتا پھرا،مگر ہر جگہ ما یو سی ہوئی۔ کہ میں ان میں وہ معیار ڈھو نڈتا تھا جو حضرت عبد القادرجیلانی (رح)نے بتا یا ہے کہ ًاگر کو ئی آسمان پر بھی اڑتا ہو پانی پر چلتا ہو ۔ مگر اس کی ایک حرکت بھی خلاف سنت ہو۔ تو وہ پیر نہیں ہو سکتا، شیطان ہے“ قصہ مختصر وہ ایک تشنگی تھی جو باقی تھی کہ مجھے عار ضہ قلب لا حق ہوا ۔ میں اب سوچنے لگا کہ مجھے شاید کوئی بھی نہیں ملے گا؟کیو نکہ اس تلاش میں میری عمرپچاس سال سے تجاوز کر چکی تھی اور ابھی تک کو ئی بھی مر د ِ حق نہیں ملا تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں یہ حسرت ساتھ ہی لیئے چلا جا ؤ ں گا ۔ میں نے ایک دن بہت ہی گڑگڑا کر خدا سے دعامانگی کہ یا اللہ تونے میری ہر خواہش پوری فرما ئی میری یہ خواہش بھی پو ری فر ما دے ۔ چو نکہ آج تک الحمد للہ میری کو ئی خوا ہش اللہ تعا لیٰ نے رد نہیں فر ما ئی، وہ جلد یا بدیر پوری ضرور ہو ئی ۔لہذا اس کی رحمت جوش میں آگئی اور مجھے رہنما ئی ملی ، میں حیرت زدہ رہ گیا کہ میں گھر میں بہتا سمندر چھو ڑ کر ادھر ، ادھر دریا ڈھو نڈتا پھررہا تھا ۔ صبح ہو ئی تو میں نے پہلا کام یہ کیا کہ مو لانا کو فون کیا ۔ میں ان کے معمو لات سے واقف تھا کہ وہ صبح کو جلدی اٹھ جا تے ہیں اور پھر معمولات سے فارغ ہوکر دارالعلوم تشریف لے جا تے ہیں ۔ چو نکہ وفورِ شو ق غالب تھا، میں نے فون کرنے میں بہت ہی جلدی کردی، مو لانا کی آواز سنا ئی دی، حیرت سے انہوں نے پو چھا خیر تو ہے اتنے صبح ہی صبح ؟ میں عرض کیا کہ میں آپ سے بیعت ہو نا چاہتا ہوں ۔ جو کہ قر بت کی بنا پر میں سمجھ رہا تھا کہ بہت معمو لی سی بات ہے ،وہ فر ما ئیں گے آجا ؤاور بات ختم۔ مگر جواب نے مجھے حیرت میں ڈالدیا ،فر مانے لگے میں تو اب کسی کو بیعت نہیں کر تا ہوں ۔ میں نے ضد کی، فر مایا اچھا میں کل بتا ؤنگا ۔ اب دوسرے دن میں ابھی منتظر ہی تھا کہ صبح ہوتو میں ان سے پو چھوں کہ کیا حکم ہے؟ مگر فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طر ف مو لا نا تھے ، اب میری متحیر ہو نے کی با ری تھی ۔ فر ما رہے تھے کہ میں تمہیں خود بیعت کر نے آرہا ہوں؟ میں نے کہا نہیں ، میں حا ضر ہو تا ہوں کہ یہ آداب مریدی کے خلاف ہے فر ما نے لگے ۔نہیں تم بیمار ہو میں آتا ہوں ۔میں نے کہا نہیں آپ وہیں انتظا ر فر ما ئیے، میں پہو نچ رہا ہو ں ۔میں پہو نچا تو مو لا نا مصلے پر تشریف فر ما تھے ۔جو میرا حصہ مجھے دکھا یا گیا تھا، وہ وہاں رکھا ہوا تھا، پو چھا کس سلسلہ میں بیعت ہو نا چا ہتے ہو ؟میں نے عرض کیا سلسلہ قادریہ میں ، ہنس کر فر ما نے لگے کیوں اس لیئے کہ اس میں حضرت عبد القادر جیلانی (رح) ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یہ ہی وجہ ہے اگر آپ مہر بانی فر ما ئیں تو ان سے با قاعدہ نسبت قائم ہو جا ئے۔ انہو ں نے ا س چیز کو شہادت کی انگلی اور انگو ٹھے اٹھایا ،نصف دانتوں سے کا ٹ کر خود تنا ول فر ما ئی، با قی بچی ہوئی میرے منہ میں دیدی اور مجھ سے بعیت لے لی ۔حالانکہ وہ اس کے بعد اٹھارہ سال حیات رہے ،مگر نہ انہوں نے کبھی خلا فت کی با ت کی نہ میں نے ما نگی ، شاید یہ میرا مقدر نہ تھا اور اللہ کو مجھ سے وہ کام نہیں کو ئی دوسر کام لینا تھا؟ نہ مانگنے کی وجہ یہ تھی کہ یہا ں بھی وہی مسئلہ پھر میرے آڑے آیا کہ حضرت عبد القادر جیلانی (رح) نے فر ما یا کہ کبھی کسی مر تبہ کی خود خواہش مت کرو ،اگر وہ خو د عطا فر ما ئے گا تو صلا حیت بھی دے گا۔تم ما نگو گے تو ممکن ہے تمہیں نبھا نا مشکل ہو جا ئے ۔وقت گزرتا گیا کہ وہ گھڑی آپہو نچی کہ میں یہاں تھا اور وہ وہاں، اور ان کا بلا وہ آگیا ۔ یہ ١٦ستمبر١٩٩٢ ء کی صبح تھی کہ میری بیٹی نے نیو یارک سے فون کیا کہ ابھی ابھی پا کستان سے فو ن آیا ہے کہ مو لانا چچا کا انتقال ہو گیا ۔ یقین نہیں آیاکہ وہ ابھی تو نیو یارک تشریف لا ئے تھے میں بھی وہیں پہونچ گیا تھا، ان سے فیض حا صل کر نے اور ان کے پیچھے نما زیں پڑھنے ۔وہ میری ان سے آخری ملا قات تھی۔ تھو ڑی دیر میں میڈیا میں بھی خبر آگئی ۔ پھر ان کی تہجیزاور تکفین کی بھی خبر آئی کہ جنازے میں لا کھو ں آدمیوں نے شر کت کی ۔ اسی کی طر ف میں نے اپنی منقبت میں اشارہ کیا ہے کہ ان کی عظمت کا را ز ان کے بعدکھلا۔جبکہ ان کے جنازہ کو گھر سے دار العلوم امجد یہ تک پہنچنے میں صبح سے شام ہوگئی۔ جہاں پر انہیں اپنے پرانے رفیق حضرت علا مہ مصطفیٰ الازہری کے پہلو میں آسودہ خاک ہو نا تھا ۔
اب آپ پو چھیں گے وہ کیسے آدمی تھے ۔ مختصر جواب یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد میں بہت ہی پختہ اور بہت ہی متقی انسان تھے۔ مگر رواداری انہو ں نے کبھی ترک نہیں فر مائی ۔ کبھی کسی کو نہیں ٹو کا کہ تم یہ کیو ں کر رہے ہو، ایسا کیو ں کر رہے، ہو ویسا کیوں کر رہے ہو؟ مسئلہ کسی نے پو چھا تو بتا دیا ،نہیں تو چشم پو شی سے کام لیتے، ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی ، وہ زاہد ِ خشک نہ تھے حس ِ مزاح بھی ان میں بے حد تھی۔ ایک مر تبہ میری بہو میرے ساتھ ان کے گھرگئیں ،وہ زنا نخانے میں چلی گئیں اور میں مولانا کے پاس ان کے کمرے میں چلا گیا ،مجھ سے پو چھنے لگے تمہا رے ساتھ کو ن آیاہے ؟میں نے کہا شبنم فر ما نے لگے شبنم اور دوپہر کو ۔،انکساری کا یہ عالم کے فیا ض کا وش ایڈو کیٹ انہیں پہچانتے نہ تھے، جب مو لانا نورانی(رح) نے سنی کا نفرنس دار العلوم امجدیہ میں اپنی جما عت اہل َسنت والجماعت قائم کرنے کے لیئے بلائی تو اس میں شرکت کے لیئے دارالعلوم امجدیہ وہ بھی میرے ساتھ میر پور خاص سے آئے، مو لا نا وہا ں تشریف فر ما تھے، فیاض کاوش نے مولانا سے کہا ذرا وہ کتاب سامنے جو الماری میں رکھی ہے اٹھا دیں۔ بجا ئے کسی شاگرد کو آواز دینے کے مولانا خود ہی اٹھے اور انہیں لاکر پیش کر دی ۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ شیخ الحدیث مفتی وقار الدین صا حب ہیں تو بہت شر مندہ ہو ئے ۔ نورانی چہرا ،گندمی رنگ ،لمبا قد اور چھریرے بدن کے مالک تھے ،فر ماتے تھے کہ خوف ِخدا اور فربہی دونوں ساتھ نہیں رہتے ۔ اور اکثر وہ یہ حدیث سنا یا کرتے تھے کہ “ قیامت کے قریب ایسے علما ءہونگے جن کے پیٹ بڑھے ہو ئے ہو نگے ان سے بچنا “
بیوی بچو ں کے ساتھ بہت شفیق بہو بٹیوں کے ساتھ شفیق ، چھو ٹوں کے ساتھ مہر بانی کا سلوک اور بڑوں کے سامنے با ادب ۔ میں نے انکاکو ئی کام کبھی خلاف سنت نہیں دیکھا۔ ان کے ہا تھوں پربہت سے لوگ ایمان لا ئے۔ مگر کہیں ذکر نہیں کو ئی تشہیر نہیں ،اخباروں میں تصویر نہیں ۔وہ تصویروں سے بہت پر یشان ہو تے تھے ہر محفل میں پہلے سے ہی منع فر مادیتے تھے کہ میری تصویر نہ لی جا ئے ۔ مگر اخبار نویس اور بچے چھپ کر تصویر لے لیتے۔ عمو ما “نکاح کی تقریبات میں بچے بہت تنگ کرتے ۔ پریشان ہو تے اور فر ماتے کہ ہر بچے کے پا س تو کیمرہ ہے میں کس طرح بچو ں ، ادھر منہ کر تاہوں تو دوسرا ادھر سے تصویرلے لیتا ہے۔ یہ علم و عرفان کا سورج ١٦ستمبر ١٩٩٢ءکو ہمیشہ کے لیئے غروب ہو گیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ہ

شائع کردہ از shukhsiyat | ٹیگ شدہ | تبصرہ کریں
رستہ دکھا یا گیا جہان کوامام کاایک ہی عمل
جیسے شفاف جھیل میں کھلا ہوا ہوکوئی کَنوَل
پھرزندہ اورجاوید کر گئی انہیں آکر وہیں اَجل
اب لا ئے گا یہ جہان کہاں سے ان کا کوئی مِثل
Posted on by shamsjilani | تبصرہ کریں
ظالم تھے جتنے لوگ وہ کوئی نہیں بچا!
وہ بھی نہ سانس لےسکے اک لمحہ چین کی
مقبول ِبارگاہ ہوئی بد دعاحضرت حسین کی
جگ کو ہے یادابتلاء نانا(ص) کے نورِعین کی
Posted on by shamsjilani | تبصرہ کریں

ghuftogo with dr.shams jilani

شائع کردہ از Uncategorized | تبصرہ کریں

حضرت عفرا ءؓبنت عبید۔۔۔شمس جیلانی

حضرت عفرا ءؓبنت عبید۔۔۔شمس جیلانی
حضرات! آج ہم آپ کو ایک ایسی صحابیہؓ سے متعارف کرانے جا رہے ہیں۔ جن کے سات بیٹے تھے۔ جو کہ دو حصوں میں تقسیم تھے ان میں سے تین مدینہ منورہ میں تھے جو کہ پہلے شوہر سے تھے جن کا نام تھا حارث ا بنِ رفا عہ تھا جو کہ خزرج کی شاخ بنو نجار میں سے تھے۔جبکہ دوسرے چار صاحبزادے انکے دوسرے شوہر بکیر بن لیل سے تھے جو کہ مکہ معظمہ میں رہا ئش پذیر تھے۔ پہلے شوہر کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ حارث سے پیداہونے والے تین بچے بجا ئے اپنے والد کے نام سے موسوم ہو نے کے اپنی والدہ کے نام سے موسوم تھے لہذا وہ تینو ں حضرت عوف بن عفرا ء، معاذ بن عفراء اور معوذ بن عفرا ء (رض) کہلاتے تھے۔ چونکہ عرب میں یہ بات عام تھی لہذا کسی نے خیال نہیں کیا اور اس کی وجہ بھی نہیں بتائی کہ وہ والدہ کے نام سے منسوب کیوں تھے؟ اگر طلاق کو وجہ سمجھا جائے تو وہ تھے بھی مدینہ منورہ میں یعنی والدہ کے پاس بھی نہیں تھے؟ اس پراسلام نے بھی بعد میں پابندی لگا دی اور حکم دیا کہ مسلمانو ں کو ان کے اصل باپ کے نام سے ہی پکارا جا ئے اور منہ بولے تمام رشتے کل عدم قراردیدئیے گئے۔ البتہ جن کے والد کے نام معلوم ہی نہیں تھے جیسے بہت سے غلام یا لونڈیاں ان کو اگر والد کا نام معلوم نہیں تھا تو رخصت تھی کے وہ اپنے مالکوں کے نام سے موسوم کیئے جا سکتے تھے۔ یہ تھیں وہ وجو ہات جن میں سے کسی ایک کی وجہ سے ان تینوں کو مورخین نے کبھی ان کے والد حارث کے نام رو شناس کرایا توکبھی حضرت عفرا ءؓ کے نام سے لہذا ہم تاریخ کی ان بھول بھلیوں میں نہیں جانا چا ہتے۔ اس لئے جیسا کہ ابن ِ کثیر ؒ نے البدا یہ والنہایہ میں لکھا ہے ہم ویسے ہی پیش کر دیتے ہیں۔کیونکہ ہم اسوقت حضرت عفرا ءؓ کی بات کر رہے ہیں۔ اس میں ابن کثیر ؒ نے جو نام دیئے وہی نام یہاں لکھ دیتے ہیں۔ان کے مطابق ایک صاحبزادے حضرت عوف ؓبن حارث کے بارے میں لکھا ہے وہ اس وفد میں بھی شامل تھے جس نے بیعت عقبہ اولیٰ میں شرکت کی تھی۔ جس میں مدینے والوں نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر پہلی باربیعت کی تھی اوردوسرے دو ان میں شامل تھے جو ان تین میں سے تھے۔جنہوں نے غزوہ بدر میں قریش کے مبازرت طلبی کے موقع پر اپنے نام پیش کیئے تھے۔ مگر قریش نے حضور ﷺ سے کہا کہ ہمارے ٹکر کے آدمی بھیجو! تو حضور ﷺ نے حضرت حمزہؓ،حضرت علی ؓ اور حضرت عبیدہ ؓبن حارث کو روانہ فرمایا اور انہوں اپنے حریفوں کوپلک جھپکتے ہی واصل جہنم کردیا جن کے نام عتبہ بن ربیع، ولید بن عتبہ اور شیبہ تھے۔ مگر ان مدنی صاحبزدوں کا سب سے بڑا کا رنامہ یہ ہے کہ انہوں ؓ نے بقول حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سب سے بڑے فرعون اور دشمن ِ اسلام ابو جہل کو جہنم رسید کیا تھا۔ جن میں سے ایک خود بھی موقع پر ہی شہید ہو گئے تھے اور دوسرے بقول حضرت ابن ِ کثیر ؒ حضرت عثمانؓ کے دور تک حیات تھے ان میں سے ایک کانام معوذ بن عفرا ء اور دوسرے کا نام معاذ بن عفرا ء تھا جیسا کہ حضرت عبد الر حمٰن ؓبن عوف کی بیان کردہ روایت میں انکاذکر ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں دور جہالیہ میں خواتین کی کوئی وقعت نہ تھی اور طلاق عام تھی نیز یہاں تک ہوتا تھا کہ باپ کے انتقال کے بعد جوسوتیلی مائیں بیٹوں کے حصوں میں آتی تھیں ان کے ساتھ وہ چاہتے تو نکاح کرلیتے تھے۔ اسلام نے نہ صرف اس قبیح رسم کو ختم کیا بلکہ قرآن میں منع کیا کہ “ اب تک جو ہوا سو ہوا مگر آئندہ نہیں ً“ یہ اسلام کا ہی معجزہ تھا کہ پہلی مرتبہ خواتین کو معاشرے میں ان کا اصل مقام ملا اور ان کو بھی وہی حقوق عطا ہوئے جو کہ مردوں کوحاصل تھے اور مرد یا عورت کے بجا ئے صرف تقویٰ کو فضیلت دی گئی ورنہ اس سے پہلے وہ مال ِ تجارت سمجھی جاتی تھیں ورثہ میں تقسیم ہوتی رہتی تھیں۔ مگر ہمارے علماء نہ جانے کیوں اسلام میں بیویوں کی تعداد چار مقرر کرنے پر اقرار کرتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرتے ہیں؟مگر یہ فخر سے نہ جانے کیوں نہیں بتا تے کہ اس سے پہلے تو کوئی حد ہی نہ تھی کہ کتنی بیویاں بہ یک وقت رکھی جا سکتی ہیں؟ جو اسرائیلیات سے بھی ثابت ہے بقول ان کے حضرت داود ؑ کی ننیانوے بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان ؑ کی بیویاں بھی لا تعداد تھیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام کے آنے کے بعد اورصحابیاتؓ کو برابری دینے کے باوجو تاریخ میں وہ کمی پوری نہیں ہوسکی جو کہ ہمیشہ سے معاشرے میں چلی آرہی تھی کیونکہ مورخ بھی تو آخر مرد ہی تھے؟ حالانکہ وہ بھی مردوں سے کچھ کم جانثار نہ تھیں جیسے کہ غزوہ اُحد میں ایک خاتون جو پانی پلانے پر مامور تھیں، انہوں نے جب حالات بگڑتے دیکھے تو مشک ایک طرف رکھدی اور خود حضورﷺ کی جان بچانے کے لئے سینہ سپر ہو گئیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں صحابیاتؓ کا ذکر بہت کم ملتا ہے اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو بہت مختصر ہوتا ہے اور اس میں زیادہ تفصیل نہیں ہوتی۔ راقم الحروف نے جب اپنی کتاب صحابیات منورات ؓ لکھنا شروع کی تو بڑی مشکلات پیش آئیں اور اس کتاب کو ان صحابیات ؓ ہی تک محدود کر نا پڑا جو کہ کسی وجہ سے مشہور تھیں۔ ابھی میں سوچ رہاں ہوں کہ کتابیں پڑھنے پڑھانے کا دور تو ختم ہوگیا ہے اپنی ویو سائٹ پر اور کتابوں کے ساتھ وہ کتاب بھی ڈالدوں تاکہ جو چاہے پڑھ سکے۔ جوکہ گو گل پر میرا نام shams jilani ڈالنے سے مل جا ئیں گی۔ ایک دوسرے مورخ نے ان چار صاحبزادوں کے نام بھی لکھے ہیں مگر حالات اور تفصیل صرف ایک کی ہے کہ وہ بھی غزوہ بدر میں شہادت پانے والوں میں شامل تھے جن کانام حضرت عاقل ؓ تھا بقیہ تین کے نام حضرت خالد، الیاس اور امیر ؓتھے۔ جوکہ سارے کہ سارے شروع میں ہی اسلام لے آئے تھے اور مدینہ منورہ ہجرت بھی کرچکے تھے۔ اور سب غزوہ بدر میں بھی شریک تھے۔ یہاں قابل ِ تعریف اس عظیم خاتونؓ کا صبر تھا۔ کہ وہ بجا ئے رونے دھونے حضور ﷺ کی خدمت ِاقدس حاضر ہوئیں اور پوچھا کہ میرا بیٹا کہاں ہے؟تو حضور ﷺ نے فرمایا جنت میں! اور انہوں نے یہ سن کر اللہ سبحانہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، اور خوشی خوشی چلی گئیں۔ اسی مورخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضور ﷺ نے ام المونین حضرت سودہ ؓ کو ان کے ساتھ کردیا تھا، ان کی دل جوئی کے لیئے واللہ عالم۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا بننے کی توفیق عطا فر ما ئے (آمین)

شائع کردہ از shaksiat | ٹیگ شدہ | تبصرہ کریں

عشرہ مبشرہ ۔۔سیدنا حضرت ابو بکر ؓ ؓ (2) شمس جیلانی

قارئینِ گرامی۔ ہم گزشتہ ہفتے حضرت ابو بکر ؓ کا ذکر کر تے ہو ئے ان کے قبول ِ اسلام تک پہو نچے تھے۔حضرت ابو بکر ؓ کے ایمان لا نے سے اسلام کو بڑی تقویت ملی اس لیئے کہ وہ قریش میں ایک با اثر مالدار با عزت فرد تھے۔ یہاں بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ اپنے اسلام کو خفیہ رکھیں اور ایک دور ایسا گزرا کہ جب تک عام دعوت کی اجا زت نہ ملی بہت سوں نے اسلام کو خفیہ رکھا۔ مگر یہا ں یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کے ذریعہ جو جلیل القدر
صحا بہ کرامؓ مشرف بہ اسلام ہو ئے وہ کس دور میں ہو ئے؟ آیا انہو ں نے جب کھلم کھلا تبلیغ شروع کی تب یا پہلے ہی۔ مگر ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضو ؐر کے دعویٰ نبوؐت کے ساتھ ہی وہ مسلمان ہو گئے تھے اور وہ حضرت طلحہ ؓ کی زبا نی ہے جس کو واقدی ؒ نے کئی حوالوں سے بیان کیا ہے کہ جب وہ ایک دن حضرت سوق بصری کی عبا د ت گاہ میں ٹھہرے ہو ئے تھے (جوکہ اہلِ کتاب میں سے کوئی بزرگ تھے) تو انہوں نے ان سے پو چھا کہ اے اہل ِ عرب!کیا تم میں سے کو ئی اہل ِ حرم میں سے یہا ں مو جود ہے تو میں نے کہا۔جی ہاں! میں خو د انہیں میں سے ہو ں تو انہوں نے فرما یا کہ کیا تم میں سے احمد ؐنے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔میں نے دریافت کیا کو ن احمد ؐ؟ تو انہوں نے کہا احمد ؐبن عبد اللہ بن عبد المطلب۔پھر بو لے یہ ہی وہ مہینہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بہ حیثیت نبی ؐمبعوث ہو نے والے ہیں ان کا شمار حرم والو ں میں سے ہے اور وہ خدا کے آخری نبی ؐہیں، وہی مکہ سے نخلستان کی سر سبز اور شاداب زمین کی طر ف ہجرت کر ینگے اور تم ان پر ایمان لانے والے اولین لو گوں میں سے ہو گے۔وہ فر ما تے ہیں سوق بصری کی با ت میرے دن میں اتر گئی اور جب میں مکہ پہو نچا اور لو گوں سے پو چھا تو انہوں نے حضو ؐر کے اعلان ِ نبوت کی تصدیق کی۔ پھر میں ابو بکر ؓ سے ملااور ان سے پو چھا ت کہ کیا آپ نے ان کے اعلان ِرسالت کی تا ئید اور تصدیق کی ہے جب انہوں نے اثبا ت میں جواب دیا تو میں بھی تصدیق رسالت پر ما ئل ہوکر انہیں بر حق سمجھنے لگا۔اس کے بعد میں ابو بکر ؓ کے ہمرا ہ حضو ؐر کی خد مت میں حا ضر ہو کر مسلمان ہو گیااور حضرت سوق بصری کی با تیں حضوؐر کے روبرو عرض کیں۔ جب میں اورابو بکر ؓ مسلمان ہو چکے تو ایک د ن ہم دونوں کہیں جا رہے تھے کہ شیر ِ قریش نوفل بن خویلد (جس کی کنیت ابن ِ عدویہ تھی) نے ہم کو را ستہ میں پکڑ کررسی سے باند ھ دیا اوربنو تمیم (حضرت ابو بکرؓ کے قبیلہ والے)بھی مزا حم نہیں ہو ئے، اس نے مجھے اور ابو بکر ؓ کو شیر و شکر کہا اور (ہمارے) اسلام کو دو نو ں کی ملی بھگت قرار دیا۔حضوؐر نے اللہ تعالیٰ سے دعا فر ما ئی کہ یا اللہ ابن ِ عدویہ کے شر کو اسی تک محدود رکھ اور ہمیں پنا ہ د ے ً اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دعوت کے پہلے مہینہ میں ہی ایمان لے آئے تھے۔بہر حال ان کی دعوت پر پانچ افراد اور ایمان لا ئے جو کہ سا رے کے عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ان کے اسما ئے گرامی یہ ہیں۔عثمان ؓ بن عفان، بنوامیہ میں سے۔ اور باقی حضرات بنو لو ئی میں سے، حضرت زبیر ؓبن عوام،حضرت عبد الر حمٰنؓ بن عوف اورحضرت سعد بن ابی وقاص۔ان کو اسلام قبول کرنے کے بعد وہ ساتھ لے کر حضو ؐر کی خدمت ِ اقدس میں
حا ضر ہو ئے اورانہوں نے اسلام اختیار کیا نیز حضور ؐکے پیچھے نماز پڑھی۔یہاں ایک حدیث بھی اس سلسلہ میں ہے جو کہ حضرت ابو بکرؓ کا حضوؐر پراعتماد اوران کی
معا ملہ فہمی ظا ہر کر تی ہے۔جس میں حضو ؐر نے فر ما یا (اردو ترجمہ) میں نے جس کواسلام کی دعوت دی، اس نے قبول کر نے میں کسی نہ کسی طرح کی تاخیر ضرور کی (جس کی وجہ) سوچ بچاراور پس و پیش تھا۔بجز ابو بکر ؓ بن قحافہ کی کیفیت کہ جب میں نے ان ؓ سے ذکر کیا تو نہ انہوں ؓنے اس میں نہ تا خیر کی اور نہ پس و پیش کیا ً۔ ان کا یہ ہی جو ہر بعد تاریخ میں بہت سے مو قعوں پر نظر آتا ہے۔ اس کے اظہار کا دوسرا مر حلہ وہ تھا۔ جب حضوؐر کو معراج نصیب ہو ئی اورلوگ کعبہ میں بیٹھے ہو ئے اس کا مضحکہ اڑا رہے تھے کہ ابو ؓ بکر آتے ہو ئے نظر آئے۔ان سے کہا کہ اب بھی تم ؓ انہیں اپنا رہبر مانتے ہوجب کہ وہؐ ایسی بے سروپا با تیں کر رہے ہیں؟پھر ان کے پو را واقعہ معراج گو ش گزار کیا۔توانہوں ؓ نے ان سے پلٹ کر صرف اتنا پو چھا کیا واقعی وہ ؐ ایسا فر ما رہے ہیں؟اور جب سب نے جواب اثبا ت میں دیا تو فر مایا کہ اگر وہ ایسا فر ما رہے ہیں تومیں اس کی تصدیق کر تا ہوں،اور وہ مایو س ہو گئے جبکہ اس سے پہلے یہ واقعہ سنا کے وہ کئی لو گوں کو بد عقیدہ بنا چکے تھے۔ جب یہ خبر ؐ حضو ر تک پہو نچی تو انہوں ؐ نے حضرت ابو بکر ؓ کو صدیق کے خطاب سے نوازا۔دوسرا مر حلہ جب آیا جب حضو ؐ ر کے وصال کے بعد اچھے اچھے صحابہ ؓ کرام اوسان کھو بیٹھے۔اس وقت انہوں ؓنے ان کی کا میاب رہنما ئی فر ما ئی۔پھر اس کے بعد انہوں ؓ نے دین کو سختی سے حضو ؐر کے را ستہ پر گا مزن رکھا۔ورنہ اسلام کا شیرازہ منشر ہو جا تا۔ جس میں ان کا اسامہ ؓ بن زید کے لشکر کی روانگی۔ منکر ان زکات قبائل کا مسئلہ اور جھوٹے مد عیا ن ِ نبوت وغیرہ شامل ہیں۔جوآپ آگے چل کر پڑھیں گے۔ اگر وہ اس وقت ذرا سے تذبذب سے کام لیتے اور ان جلیل القدر صحا بہ ؓ کا مشورہ قبول کر لیتے کہ اس وقت مصلحت سے کا م لیا جا ئے اور تمام معا ملا ت التو ا میں ڈالدیئے جا ئیں تو دین اسلام،دین ِ مصلحت بن جاتا اور اسلام کی تا ریخ کچھ اور ہو تی۔ ان ہی کے اُن اقدامات کو مثا ل بنا کر اسلام کے فرا ئض سے روگردانی کا قیا مت کے لیئے ایک جواز بنا لیاجاتا اور لوگ اتبا ع رسول ؐ کو غیر ضروری قرار د یدیتے اور دین مو قع پر ستوں کی آما جگا ہ بن جا تا۔
حضرت ابو بکر ؓ کی جانثاری۔ایک دن جبکہ حضور ؐ کعبہ میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ کہ ابو جہل نے انؐ کے گلے میں چادر ڈال کر اور اس کو بل دینا شروع کردیئے۔حتیٰ کہ حضو ر ؐ کی چشم ہا ئے مبا رک تکلیف کی شدت کے باعث باہر ابل آئیں۔حضرت ابو بکر ؓ آگے بڑھے اور اس سے دست بہ گریبان ہو گئے۔یہ واقعہ ام المو نین حضرت عا ئشہ سے روایت ہے وہ فرما تی ہیں۔کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی ان پر پل پڑے اور ان کو بری طر ح زد وکوب کیا۔ اور ریش
مبا رک اور سر کے بال بری طرح کھینچے۔اتنے میں بنو تمیم کے لو گ آگئے اور وہ ان کو بچا کر لے گئے۔ لیکن کئی دن وہ ان چو ٹوں کی وجہ سے دردِ سر میں مبتلا رہے۔اور دوسرا اور سب سے اہم واقعہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کی تعداد اڑتیس ہو گئی۔ تو انہوں ؓ نے حرم شریف میں جاکر کھلی تبلیغ کی اجازت چاہی لیکن حضورؐ منع فر ماتے رہے۔ جب انہوں ؓنے بہت اصرار کیا تو حضوؐ ر نے اجازت دیدی۔وہ ؓ دس دس کی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر کعبہ پہو نچے۔ اور حضرت ابو بکرؓ نے تقریر شروع فرمائی جس میں اسلام کی حقانیت بیان فر ما ئی۔ اس طرح وہ پہلے شخص اہل ِ ایمان میں سے تھے جنہوں ؐ نے حضو ؐر کے روبرو تقریر کی۔ بس پھر کیا تھا کہ
سا رے قریش ان پر ٹو ٹ پڑے اور زدو کو ب کر نا شروع کر دیا۔یہ دیکھ بنو تمیم کے لو گ ان کو بچا نے کے لیئے پہو نچے۔لیکن انہوں نے ان سے بھی لڑنا شروع کردیا اور ظاہر ہے کہ بنو تمیم کا چھوٹا سا قبیلہ پو رے قریش کے مقا بلہ میں کیاکر سکتے تھا واضح رہے کہ یہ وہ اس کعبہ میں کر رہے تھے جہا ں خو ن بہا نا منع ہے۔ وہ حضرت ابو بکر ؓ کوما رتے رہے اور اتنا زد کوب کیا کہ اپنے نزدیک وہ سمجھے کہ انہو ں نے حضرت ابو بکر ؓ کو شہید کر دیا۔ آخر ان کو بنو تمیم ایک (چادر کا اسٹریچر بناکر) چا در میں ڈال کر لے گئے اور ان کو ان کے گھر پہو نچا دیا۔ پھر واپس آکر اعلان کر دیا کہ وہ ؓشہید ہو گئے۔ اس کے بعد وہ واپس گئے (شاید تہجیز اور تکفین کے انتظا مات کے لیئے) مگر دیکھا کہ ابھی انؓ میں کچھ زندگی کی رمق با قی ہے لہذا انہوں نے ان کے جسم کو اپنی زبانوں سے چا ٹ کر صاف کیا اور ان کے گھر والوں کو ہدایت کر کے چلے گئے کہ جب یہ ؓہو ش میں آجائیں تو ان ؓ کو صرف رقیق غذا دی جا ئے لیکن وہ ؓجب ہو ش میں آئے تو انہو ں ؓ نے پہلا سوال یہ پو چھا کہ حضو ؐر کیسے ہیں؟اور جب اہل ِ خانہ نے اس سے لا علمی کا ظاہر کی تو انہوں ؓ نے فر ما یا کہ میں جب تک کچھ نہیں کھا ؤں پیونگا، جب تک میں حضور ؓ کو نہ دیکھ لوں۔ (باقی اگلے بدھ کو پاکیزہ میں پڑھئے)

شائع کردہ از ashrah mubasharah | ٹیگ شدہ | تبصرہ کریں