حضرت عفرا ءؓبنت عبید۔۔۔شمس جیلانی
حضرات! آج ہم آپ کو ایک ایسی صحابیہؓ سے متعارف کرانے جا رہے ہیں۔ جن کے سات بیٹے تھے۔ جو کہ دو حصوں میں تقسیم تھے ان میں سے تین مدینہ منورہ میں تھے جو کہ پہلے شوہر سے تھے جن کا نام تھا حارث ا بنِ رفا عہ تھا جو کہ خزرج کی شاخ بنو نجار میں سے تھے۔جبکہ دوسرے چار صاحبزادے انکے دوسرے شوہر بکیر بن لیل سے تھے جو کہ مکہ معظمہ میں رہا ئش پذیر تھے۔ پہلے شوہر کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ حارث سے پیداہونے والے تین بچے بجا ئے اپنے والد کے نام سے موسوم ہو نے کے اپنی والدہ کے نام سے موسوم تھے لہذا وہ تینو ں حضرت عوف بن عفرا ء، معاذ بن عفراء اور معوذ بن عفرا ء (رض) کہلاتے تھے۔ چونکہ عرب میں یہ بات عام تھی لہذا کسی نے خیال نہیں کیا اور اس کی وجہ بھی نہیں بتائی کہ وہ والدہ کے نام سے منسوب کیوں تھے؟ اگر طلاق کو وجہ سمجھا جائے تو وہ تھے بھی مدینہ منورہ میں یعنی والدہ کے پاس بھی نہیں تھے؟ اس پراسلام نے بھی بعد میں پابندی لگا دی اور حکم دیا کہ مسلمانو ں کو ان کے اصل باپ کے نام سے ہی پکارا جا ئے اور منہ بولے تمام رشتے کل عدم قراردیدئیے گئے۔ البتہ جن کے والد کے نام معلوم ہی نہیں تھے جیسے بہت سے غلام یا لونڈیاں ان کو اگر والد کا نام معلوم نہیں تھا تو رخصت تھی کے وہ اپنے مالکوں کے نام سے موسوم کیئے جا سکتے تھے۔ یہ تھیں وہ وجو ہات جن میں سے کسی ایک کی وجہ سے ان تینوں کو مورخین نے کبھی ان کے والد حارث کے نام رو شناس کرایا توکبھی حضرت عفرا ءؓ کے نام سے لہذا ہم تاریخ کی ان بھول بھلیوں میں نہیں جانا چا ہتے۔ اس لئے جیسا کہ ابن ِ کثیر ؒ نے البدا یہ والنہایہ میں لکھا ہے ہم ویسے ہی پیش کر دیتے ہیں۔کیونکہ ہم اسوقت حضرت عفرا ءؓ کی بات کر رہے ہیں۔ اس میں ابن کثیر ؒ نے جو نام دیئے وہی نام یہاں لکھ دیتے ہیں۔ان کے مطابق ایک صاحبزادے حضرت عوف ؓبن حارث کے بارے میں لکھا ہے وہ اس وفد میں بھی شامل تھے جس نے بیعت عقبہ اولیٰ میں شرکت کی تھی۔ جس میں مدینے والوں نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر پہلی باربیعت کی تھی اوردوسرے دو ان میں شامل تھے جو ان تین میں سے تھے۔جنہوں نے غزوہ بدر میں قریش کے مبازرت طلبی کے موقع پر اپنے نام پیش کیئے تھے۔ مگر قریش نے حضور ﷺ سے کہا کہ ہمارے ٹکر کے آدمی بھیجو! تو حضور ﷺ نے حضرت حمزہؓ،حضرت علی ؓ اور حضرت عبیدہ ؓبن حارث کو روانہ فرمایا اور انہوں اپنے حریفوں کوپلک جھپکتے ہی واصل جہنم کردیا جن کے نام عتبہ بن ربیع، ولید بن عتبہ اور شیبہ تھے۔ مگر ان مدنی صاحبزدوں کا سب سے بڑا کا رنامہ یہ ہے کہ انہوں ؓ نے بقول حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سب سے بڑے فرعون اور دشمن ِ اسلام ابو جہل کو جہنم رسید کیا تھا۔ جن میں سے ایک خود بھی موقع پر ہی شہید ہو گئے تھے اور دوسرے بقول حضرت ابن ِ کثیر ؒ حضرت عثمانؓ کے دور تک حیات تھے ان میں سے ایک کانام معوذ بن عفرا ء اور دوسرے کا نام معاذ بن عفرا ء تھا جیسا کہ حضرت عبد الر حمٰن ؓبن عوف کی بیان کردہ روایت میں انکاذکر ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں دور جہالیہ میں خواتین کی کوئی وقعت نہ تھی اور طلاق عام تھی نیز یہاں تک ہوتا تھا کہ باپ کے انتقال کے بعد جوسوتیلی مائیں بیٹوں کے حصوں میں آتی تھیں ان کے ساتھ وہ چاہتے تو نکاح کرلیتے تھے۔ اسلام نے نہ صرف اس قبیح رسم کو ختم کیا بلکہ قرآن میں منع کیا کہ “ اب تک جو ہوا سو ہوا مگر آئندہ نہیں ً“ یہ اسلام کا ہی معجزہ تھا کہ پہلی مرتبہ خواتین کو معاشرے میں ان کا اصل مقام ملا اور ان کو بھی وہی حقوق عطا ہوئے جو کہ مردوں کوحاصل تھے اور مرد یا عورت کے بجا ئے صرف تقویٰ کو فضیلت دی گئی ورنہ اس سے پہلے وہ مال ِ تجارت سمجھی جاتی تھیں ورثہ میں تقسیم ہوتی رہتی تھیں۔ مگر ہمارے علماء نہ جانے کیوں اسلام میں بیویوں کی تعداد چار مقرر کرنے پر اقرار کرتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرتے ہیں؟مگر یہ فخر سے نہ جانے کیوں نہیں بتا تے کہ اس سے پہلے تو کوئی حد ہی نہ تھی کہ کتنی بیویاں بہ یک وقت رکھی جا سکتی ہیں؟ جو اسرائیلیات سے بھی ثابت ہے بقول ان کے حضرت داود ؑ کی ننیانوے بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان ؑ کی بیویاں بھی لا تعداد تھیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام کے آنے کے بعد اورصحابیاتؓ کو برابری دینے کے باوجو تاریخ میں وہ کمی پوری نہیں ہوسکی جو کہ ہمیشہ سے معاشرے میں چلی آرہی تھی کیونکہ مورخ بھی تو آخر مرد ہی تھے؟ حالانکہ وہ بھی مردوں سے کچھ کم جانثار نہ تھیں جیسے کہ غزوہ اُحد میں ایک خاتون جو پانی پلانے پر مامور تھیں، انہوں نے جب حالات بگڑتے دیکھے تو مشک ایک طرف رکھدی اور خود حضورﷺ کی جان بچانے کے لئے سینہ سپر ہو گئیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں صحابیاتؓ کا ذکر بہت کم ملتا ہے اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو بہت مختصر ہوتا ہے اور اس میں زیادہ تفصیل نہیں ہوتی۔ راقم الحروف نے جب اپنی کتاب صحابیات منورات ؓ لکھنا شروع کی تو بڑی مشکلات پیش آئیں اور اس کتاب کو ان صحابیات ؓ ہی تک محدود کر نا پڑا جو کہ کسی وجہ سے مشہور تھیں۔ ابھی میں سوچ رہاں ہوں کہ کتابیں پڑھنے پڑھانے کا دور تو ختم ہوگیا ہے اپنی ویو سائٹ پر اور کتابوں کے ساتھ وہ کتاب بھی ڈالدوں تاکہ جو چاہے پڑھ سکے۔ جوکہ گو گل پر میرا نام shams jilani ڈالنے سے مل جا ئیں گی۔ ایک دوسرے مورخ نے ان چار صاحبزادوں کے نام بھی لکھے ہیں مگر حالات اور تفصیل صرف ایک کی ہے کہ وہ بھی غزوہ بدر میں شہادت پانے والوں میں شامل تھے جن کانام حضرت عاقل ؓ تھا بقیہ تین کے نام حضرت خالد، الیاس اور امیر ؓتھے۔ جوکہ سارے کہ سارے شروع میں ہی اسلام لے آئے تھے اور مدینہ منورہ ہجرت بھی کرچکے تھے۔ اور سب غزوہ بدر میں بھی شریک تھے۔ یہاں قابل ِ تعریف اس عظیم خاتونؓ کا صبر تھا۔ کہ وہ بجا ئے رونے دھونے حضور ﷺ کی خدمت ِاقدس حاضر ہوئیں اور پوچھا کہ میرا بیٹا کہاں ہے؟تو حضور ﷺ نے فرمایا جنت میں! اور انہوں نے یہ سن کر اللہ سبحانہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، اور خوشی خوشی چلی گئیں۔ اسی مورخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضور ﷺ نے ام المونین حضرت سودہ ؓ کو ان کے ساتھ کردیا تھا، ان کی دل جوئی کے لیئے واللہ عالم۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا بننے کی توفیق عطا فر ما ئے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
زمرے
حالیہ تبصرے